فطری امور

فطری امور کے خصوصیات

کوئی چیز بھی فطرت کو نہیں بدل سکتی جب کہ دوسرے امور، عادت وغیرہ سے بدلتے رہتے ہیں

الف:  متفق علیہ ہونا

امام خمینی(ره) کا عقیدہ یہ ہے کہ فطری امور میں  کسی طرح بھی اختلاف نہیں  ہو تا، مختلف فرق ومذاہب اور مسلک جن کے عقائد الگ الگ ہوتے ہیں  ان میں  بھی فطری امور میں  اختلاف نہیں  ہوتا اسی طرح جغرافیائی کے لحاظ سے مختلف علاقے، ہر جگہ کی فضا، لوگوں  کے رجحانات اور ہر علاقہ کے لوگ جن چیزوں  کے عادی ہوتے ہیں  نیز ان کے آراء اور عادتیں  فطری امور میں  اختلاف نہیں  کرتیں ، لوگوں  کی الگ الگ فہم منابع کی کمزوری وتقویت اور معرفت کے آلہ واوزار کی وجہ سے بھی اختلاف نہیں  ہوتا۔ آپ اس سلسلے میں  فرماتے ہیں :

جو چیزیں  احکام فطرت سے ہیں  چونکہ اصل طینت وخلقت میں  لوازم وجود وہیئت مخمرہ سے ہیں  لہٰذا کسی کو ان کے بارے میں  اختلاف نہیں  ہوتا۔۔۔ سب لوگ متفق ہوتے ہیں  اس میں  کسی عادت ومذہب اور مختلف طریقوں  کو دخالت نہیں  ہوتی اور ان امور میں  کسی طرح کا خلل واقع نہیں  ہوتا اور کوئی رخنہ نہیں  پڑتا۔ شہروں ، ہواؤں ، مانوسات، آراء وعادات ہر چیز میں  یہاں  تک کہ احکام عقلیہ میں  بھی اختلاف کاسبب بنتی ہیں  مگر فطریات میں  اصلاً ان کا کوئی اثر ہی نہیں  ہوتا لوگوں  کے فہم وادراک کے قوی یا ضعیف ہونے سے ان پر ذرہ برابر فرق نہیں  پڑتا۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۸۰ )

البتہ عام طور سے لوگ انسانوں  کے اس اندرونی اتفاق نظر کی وجہ سے غافل ہیں  اور یہ تصور کرتے ہیں  کہ امور فطری میں  بھی اختلاف واقع ہو تا ہے۔

ب:  بدیہی اور واضح ہونا

امور فطری کی دوسری خصوصیت اس کا بدیہی اور واضح ہونا ہے۔ امام خمینی(ره) کا عقیدہ ہے کہ امور فطری ان واضح ترین امور میں  سے ہیں  جنہیں  انسان اپنے ساتھ رکھتا ہے اسی لئے عام طور سے لوگ خیال کرتے ہیں  کہ ان میں  لوگوں  کے درمیان اختلاف ہوتا ہے لیکن جب انہیں  تھوڑاسا متنبہ کر دیا جاتا ہے تو یقین ہو جا تا ہے کہ سب کا نظریہ بالکل ایک ہے۔

فطرت کے احکام تمام بدیہی احکام میں  سب سے زیادہ بدیہی اور واضح ہیں  کیونکہ تمام عقلی احکام میں  کوئی ایسا حکم نہیں  ملتا جس کے بارے میں  کوئی شخص اختلاف نہ کرے یا نہ کئے ہو۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۸۱)

بنا بر ایں  امام خمینی(ره) کا نظریہ یہ ہے کہ اختلاف نہ ہونے کی وجہ ان کا بدیہی ہو نا ہے جب کہ دوسروں  کا نظریہ آپ کے بر خلاف ہے وہ لوگ کہتے ہیں : امور فطری کا منشاء تلقین، تعلیم، اجتماعی طور پر زندگی بسر کرنا اور تمام انسانوں  کا اجتماعی ہو نا ہے اسی وجہ سے ان میں  اختلاف نہیں  ہوتا ہے۔

ج:  سعادت وشقاوت کی صلاحیت

امام خمینی(ره) کی نظر میں  امور فطری کچھ بالقوہ اور صلاحیت محض امور کا نام ہے اور خلقت کے آغاز میں  انسان کے نفس کے اندر کوئی فطری بالفعل امر، شقی وسعید ہونے کے لحاظ سے موجود نہیں  ہوتا ہے:

انسان کے نفوس، فطرت وخلقت کے آغاز میں  محض استعداد اور نفس قابلیت کے علاوہ کچھ نہیں  ہوتے وہ شقاوت وسعادت کے سلسلے میں  ہر قسم کی فعلیت سے خالی ہوتے ہیں ، حرکات طبیعیہ جوہریہ اور فعلیہ اختیاریہ کے تصرف کے بعد تمام صلاحیتیں  فعلیت میں  بدل جاتی ہیں  اور ان میں  تمیز حاصل ہو جاتی ہے۔( شرح چہل حدیث، ص ۳۲۳)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امور فطری کے استعداد محض ہونے سے امام خمینی(ره) کی مراد یہ ہے کہ ایسا نہیں  ہے کہ انسان کی بدبختی اور خوش بختی، فطری امور کے ذریعے بالکل ثابت ومسلم ہو چکی ہے بلکہ اس میں  انسان کا اختیار ہے لیکن رہی یہ بات کہ انسان کی فطرت وخلقت، توحید اور قوائے ثلاثہ: غضب، شہوت اور وہم پر ہے یہ سب بالفعل صورت میں  انسان کی ذات کے اندر موجود ہیں  اس بات کو امام خمینی  (ره) تسلیم فرماتے ہیں  بلکہ اس کے علاوہ آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام موجودات کو ذات حق کی معرفت حاصل ہے۔( شرح چہل حدیث، ص ۲۸۳)

اسی طرح امام خمینی(ره) کا نظریہ ہے کہ کمال کی جانب فطری طور پر رغبت ہوتی ہے اور اسی سے انسانیت کا پتہ چلتا ہے اور حیوانات کا راستہ الگ ہو جاتا ہے نیز اسی سے اچھے اور برے عمل کا اندازہ ہوتا ہے۔آپ اس سلسلہ میں  فرماتے ہیں :

اس اصل کی بنیاد پر نہ تو ذاتی طور پر کوئی گناہ گار ہوتا ہے اور نہ جبری طور پر بدبخت وخوش بخت ہو تا ہے اور جبر کے مقدمات اور جبر کی قسمیں  حیاتیات، عضویات، زمین شناسی اور تاریخی یہاں  تک کہ اجتماعی قسمیں  سعادت وشقاوت سے بری ہیں ۔

د:  تغییر کے قابل نہیں

امام خمینی  (ره)آیت شریفہ فطرت کے ذیل میں  اس فقرہ ’’لا تبدیل لخلق اللّٰہ‘‘کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

کوئی چیز بھی فطرت کو نہیں  بدل سکتی جب کہ دوسرے امور، عادت وغیرہ سے بدلتے رہتے ہیں ۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۸۱)


ای میل کریں