امام خمینی رحمت اللہ علیہ: عدالت و انصاف سے عمل کرنا، ضروری ہے۔
ہم سب نے اپنے لئے " اسلامی جمہوریہ " کا نام منتخب کیا ہے؛ پہلوی حکومت کو منسوخ کرکے دفنا دیا؛ انشاء اﷲ دوبارہ زندہ نہیں ہوگا۔
اس وقت ہم سب کا فرض ہےکہ جس نظام کا مدعی ہیں قائم ہوچکا ہے، یہ حقیقت میں اور عملی طورپر قائم ہوجائے۔
آپ ایک وزارت میں ملازم ہیں، ایک طرح سے عمل کریں، وہ لوگ دوسری وزارت میں ملازم ہیں، وہ بھی ایک طرح سے عمل کریں، آپ سب کو اسلامی ملازم ہونا چاہئے۔ ہر ایک کو اپنا فرض سمجھنا چاہئے کہ کرسی پر بیٹھے ہوئے، اس کے ذمہ جو کام سپرد کیا گیا ہے، اسے عدل کے ساتھ انجام دے۔ اس بات کا انتظار نہ کرےکہ وزیر عدالت قائم کرے۔ وزیر عادل ہو یا نہ ہو، آپ کو خود عادل ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم کا عادل ہونا یا نہ ہونا، یہ اس کے اپنے فائدے یا نقصان میں ہے۔ اس کا حساب بھی خدا کی بارگاہ میں الگ ہے۔ ملت کے سامنے بھی اس کا حساب الگ ہے۔ آپ جو یہ جزئی کام انجام دے رہے ہیں، اس میں عدالت و انصاف سے عمل کرنا، ضروری ہے۔
وہ افسر جو آفس میں بیٹھا ہے، اسے اپنے کام میں عدالت پر عمل کرنا چاہیے۔ اس بات کا انتظار نہ کرےکہ دوسرے عادل ہوں گے تو وہ بھی عادل ہوگا۔
آخر کس طرح آدمی اپنے طبیعی فرائض پر عمل کرتا ہے، طبیعی فرائض پر یکایک خود عمل کرتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی اس بات کا انتظار کیا کہ دوسرے سانس لیں گے تو بھی میں سانس لوں گا؟ دوسرے دیکھیں گے تو آپ دیکھیں گے؟ کبھی اس طرح نہیں ہے۔ آپ اپنی فطرت کے لحاظ سے اپنے طبیعی فرائض پر ذاتی طورپر عمل کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ کہ دوسروں کو بھی اس عمل کی تاکید کریں۔ [یعنی ایک دوسرے کے حق میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں] یہاں آپ کا فرض نہیں ہےکہ دوسروں سے کہیں کہ دیکھئے۔ البتہ وہاں فرض ہےکہ دوسروں کا خیال رکھیں اور دوسروں کی بھی تربیت کریں۔ ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہےکہ خود اپنا کام انجام دیں اور فرض ہےکہ دوسروں کو بھی نیک کام پر تاکید اور برے کام سے روکیں۔
صحیفہ امام، ج۹، ص۱۵
اسلامی عدل و انصاف پر عمل کرنا، عدلیہ اور متعلقہ اداروں سے مختص نہیں، یہ فریضہ تمام موجودہ اداروں، پولیس اہلکاروں نیز فوجی دستوں، سپاہ پاسداران، عوامی کمیٹیوں اور رضاکار فورس [بسیج] سمیت اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام عہدیداروں کےلئے ضروری اور واجب امر ہے اور کسی ایک کو بھی حق نہیں ہےکہ لوگوں کے ساتھ غیر اسلامی سلوک سے پیش آئے۔
صحیفہ امام، ج۱۷، ص۱۴۰
کبھی کبھار ایسا ہوتا ہےکہ کچھ کام ظاہری طور پر اسلامی نظر آتا ہے مگر دراصل اسلامی اصولوں کے برخلاف انجام پاتا ہے۔ مثلاً کچھ لوگ یا بعض پاسداروں سے وابستہ افراد، خدمت کرنا چاہتے ہیں، پولیس اہلکار خدمت کرنا چاہتی ہے، حقیقت میں بھی خدمت کرنا غرض ہے مگر کام کرتے وقت کچھ اس طرح کمی بیشی ہوجاتی ہےکہ گناہ میں ملوث ہوجاتا ہے۔ مثلاً بعض افراد، عوامی کمیٹیوں میں یا رضاکار فورس [بسیج] میں خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ خدمت کرنے والے اس طرح خدمت انجام دیتے ہیں کہ جو اسلامی قوانین کی روسے صحیح نہیں ہے۔ مثال کے طور پر رات کو نعرے لگانا، دعا پڑھنا یا تکبیر دینا شروع کردیں جبکہ پڑوسی کو تکلیف پہنچ رہی ہے، ہسپتال میں بیمار لوگ ہے، انھیں پریشانی ہو رہی ہے، آپ ایک کام کو عبادت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں مگر وہ گناہ کبیرہ میں شامل ہو رہا ہے؛ بوقت سحر، ایک جماعت دعائے وحدت پڑھنا چاہیں تو وہ اپنے گھر میں پڑھیں، خدا کےلئے، اگر اسپیکر ہے تو اسے اندر رکھیں تاکہ آواز باہر نہ کونچ اٹھے۔
بعض افراد میرے پاس شکایت لےکر آتے ہیں کہ ہمارے آرام و سکون میں خلل ڈالتے ہیں کچھ لوگ، یہاں تک کہ ہمارا سونا تک حرام کر رکھا ہے۔
آپ ایک عبادت کے ذریعے ثواب کا کام کرنا چاہتے ہیں، احتجاج کرنا چاہتے ہیں، تبلیغ و دعا پڑھنا چاہتے ہیں اور یہ دعا، آپ کا اور اللہ کے درمیان ہے، پس اگر کسی اجتماع میں دعا پڑھنا چاہیں تو وہاں اسپیکر باہر نہ رکھیں تاکہ اس محلہ اور دوسرے محلوں کے لوگوں کو تکلیف نہ ہو کیونکہ [دوسروں کو اذیت دینا] یہ گناہ کبیرہ ہے، لہذا اب عذر نہیں رہ جاتا، مومن و مسلمان کو تکلیف پہنچانا گناہ کبیرہ ہے۔
صحیفہ امام، ج۱۶، ص۴۱۰