غرور و تکبر

غرور و تکبر کا حجاب

ایک بڑا پردہ یا حجاب تکبر وغرور ہے

امام خمینی  (ره)آغاز ہی میں  ایک بڑے حجاب یعنی غرور وتکبر کا ذکر کرتے ہیں ۔ تکبر کی بیماری ایسی ہے کہ متکبر انسان اپنے آپ کو دیگر تمام انسانوں  سے بے نیاز تصور کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی سوچتا اور سمجھتا ہے، درست ہے اور وہ ایسے مقام پر ہے کہ اسے دوسروں  کی ضرورت نہیں  ہے۔ اسی بنا پر وہ دوسروں  کی بات پر کان دھرنے کیلئے تیار نہیں  ہوتا اگر کسی کی بات سنتا بھی ہے تو فقط اس لیے کہ اس کی عیب جوئی کرسکے اس لیے نہیں  کہ اس سے کوئی بات سمجھ سکے اور غلط راستے کی اصلاح کرسکے۔ غرور وتکبر انسان کو لاحق ہونے والا سب سے بڑا خطرہ ہے جو انسان کے تکامل سے مانع ہوتا ہے۔ امام خمینی  (ره) اس بارے میں  لکھتے ہیں :

’’ایک بڑا پردہ یا حجاب تکبر وغرور ہے، متعلّم اس حجاب کی بنا پر خود کو مستغنی سمجھتا ہے اور وہ اپنے آپ کو استفادے کا محتاج نہیں  جانتا ہے اور یہ شیطان کا ایک اہم شاہکار ہے کہ جو ہمیشہ موہوم کمالات کو انسان پر ظاہر کرتا ہے اور انسان کے پاس جو کچھ ہے اس پر اسے راضی وقانع کرتا ہے۔ اس سے آگے جو کچھ بھی ہوتا ہے شیطان اس کی آنکھوں  سے اوجھل کردیتا ہے‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۱۹۵)

امام خمینی  (ره) نے اس سلسلے میں  ایسی مثالوں  کی طرف اشارہ کیا ہے جن کا تعلق قرآن اور قرآن کے محققین سے ہے اور کہتے ہیں : تکبر کا پردہ قرآن سے استفادہ کرنے والوں  سے مخصوص نہیں  ہے، بلکہ فلسفی، عارف، فقیہ بھی علمی وعملی غرور میں  مبتلا ہوتے ہیں ۔ ان میں  سے ہر گروہ اپنے تکبر کی وجہ سے کسی خطرے سے دوچار ہوجاتا ہے لیکن یہ خطرہ اس شخص کیلئے کہ جو قرآن کی خدمت میں  حاضر ہوتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ جس قدر تجوید وہ جانتا ہے اس کے ذریعے وہ قرآن سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے یا جو ادیب قرآن کے الفاظ اور ان کی ترکیب کو اچھی طرح جانتا ہے اور معانی وبدیع کی اچھی طرح وضاحت کرسکتا ہے یا جو شخص قرآن کی تلاوت مختلف قرائتوں  کے ساتھ کرتا ہے اور ان قرائتوں  سے آشنا ہے حتی کہ ان کی وجوہات سے بھی آگاہ ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ فلاں  قرائت کا حامی کون ہے؟ زیادہ ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام معلومات وہم پیدا کرنے والے کمالات ہیں  جو کہ قرآنی حقائق کے ادراک سے مانع ہیں  اور راستہ طے کرنے سے روک دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے امام خمینی  (ره) لکھتے ہیں  کہ قرآن سے استفادہ کرنے والے کو چاہیے کہ ان تمام پردوں  کو پھاڑ ڈالے اور ان پردوں  کے پیچھے  سے قرآن کو دیکھے اور اگر کسی ایک پردے کو پھاڑ دے تو تصور نہ کرے کہ کام ختم ہوگیا ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ابھی اور پردہ یا حجاب باقی ہو۔اس مقام پر امام خمینی  (ره) حضرت موسیٰ اور حضرت خضر  (ع) کی داستان کی یاد دہانی کرواتے ہیں  کہ موسیٰ  ؑنے کہ جو اولوا العزم پیغمبر اور کلیم اﷲ تھے، نبوت کے بزرگ مقام پر قناعت نہ کی اور اس سے بھی بالاتر مقام کی طرف بڑھے کہ جو کسی اور شخص کے پاس تھا۔ پس جب ان سے ملاقات کی تو نہایت ہی مودبانہ انداز میں  کہا کہ آیا میں  آپ کا ہم سفر ہوسکتا ہوں  تاکہ جو آپ نے سیکھا وہ مجھے سکھا دیں ۔( آداب الصلاۃ، ص ۱۹۶)

اخلاق وعرفان کا ایسا عالم اور ایسا سالک بہت ہی کم نظر آتا ہے کہ جس نے تکبر وغرور کے بارے میں  کچھ نہ کہا ہو۔اور تکبر کو معنویت کی راہ اور کمال تک پہنچنے کے راستے کی رکاوٹ قرار نہ دیا ہو اسی بنا پر قرآن میں  یہ تعلیم { قُل ربّ زدني علماً}(طہ ؍ ۱۱۴) ’’کہو اے ربّ! میرے علم میں  اضافہ فرما‘‘ ایک ایسے حکم کے طورپر آئی ہے جو پیغمبر اکرم  ﷺ کو دیا گیا ہے کہ اس فکر کی ترویج کریں ، کیونکہ انسان جس قدر بھی کمال رکھتا ہو اس کو یہ گمان نہیں  کرنا چاہیے کہ کام ختم ہوگیا ہے اور منزل مقصود آگئی ہے، بلکہ ہمیشہ اسے چاہیے کہ ان پردوں  کو ہٹائے تاکہ عظیم تر مقصد تک پہنچ سکے۔


ای میل کریں