معاشره

معاشرہ کی ترقی اور پستی کا معیار

دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے

بےشک انسان کی حقیقی زندگی اس کی روحانی اور معنوی زندگی ہے اور اس کی مادی زندگی اس کی جسمانیت کی بقا کے لوازم کے حکم میں ہے، انسان اس دنیا میں اپنی معنوی اور روحانی حیات کے مرتبہ کے ساتھ اس دنیا میں الہی مقام و منزلت رکھتا ہے اور برزخ و آخرت میں اخروی مقام و مرتبہ پائے گا۔ خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

"یا ایہا الذین آمنوا استجیبوا اللہ و للرسول اذا دعاکم لما یحیکم"

اللہ کی عبودیت اور بندگی کی روشنی میں زندگی گذارنا اور ایمان و تقوی کی راہ پر گامزن ہونا اور عرشی اخلاق کا ملک ہونا آسمانی حیات تک رسائی ہے اور یہی معنوی اور روحانی زندگی ہے جو اس آیت میں مدنظر ہے۔

اس زندگی میں موت نہیں بلکہ موت انسان کی جسمانی حیات کے حدود میں ہے۔ بنابریں روح معنویت کی حاکمیت تدین اور فرد و معاشره کا الطاف و عنایت الہی کے فیاض چشمہ سے اتصال دنیا پرستی سے نجات کا سبب اور انسانی کمال کا وسیلہ ہے۔ اساسی طور پر انسانی ترقی کے سارے اسباب و عوامل زندگی کے مختلف میدانوں میں جیسے ٹکنالوجی کی ترقی، علم اور عمرانی اور زیستی امور کی پیشرفت انسان کے عبودی و معنوی ترقی کے لئے مناسب فضا کے ہموار ہونے ہی پر ممکن ہے، آپ ملاحظہ کریں کہ مغربی دنیا اپنی تمام تر صنعتی ترقی اور ٹکنالوجی کی پیشرفت کے باوجود معنوی بحران کا شکار اور انسان کا خود سے بیگانہ ہونا ہے۔

اس سلسلہ میں مذہبی انجمنوں، کمیٹیوں، مساجد عزاخانوں، ثقافتی شخصیات، حوزہ ہائے علمیہ اور دیگر ثقافتی مراکز کی ذمہ داری بہت قابل قدر اور باعث توجہ ہے۔ بالخصوص اس بات کے مد نظر کے ادیان الہی اور انقلاب اسلامی کے دشمنوں نے لوگوں کو اسلام کی خالص ثقافت سے دور کرنے اور الہی معنویت سے بیگانہ بنانے اور انہیں مضرب نوازی میں مبتلا کرنے کے نظریہ میں ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

اسلام کی ثقافتی تعلمیات انسان کو بہت ہی قابل قدر شخصیت کا مالک بناتی ہیں۔ اور اسے عظمت و کرامت عظا کرتی ہیں اور اسے فکر و عمل کے لحاظ سے محبوب الہی کے ہم پلہ قرار دیتی ہیں۔ دنیاوی فضا میں اس کے مختلف جاذبوں کی وجہ سے انسان دنیا پرست ہوجاتا ہے اور یہی انسان کے معنوی سقوط کا آغاز اور سرچشمہ ہے۔

"حب الدنیا راس کل خطیئہ" ؛ "دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے" اور معنوی گراوٹ اور روحانی پستی انسان کو مادی مظاہر کے حصول کے لئے ہر قیمت پر مجبور کرتی ہے اور اس کی ثقافت کو آلودہ بناتی ہے اور اسے بد تہذیب بناتی اور ثقافت سے دور کرتی ہے لیکن خدا کے ساتھ اور ان کی نگاہ کا افق دنیا سے بالاتر ہے اور وہ لوگ ہمیشہ اسلامی ثقافت کے مدار پر زندگی گذارتے ہیں اور کبھی دنیا کے ظواہر کے فریب میں نہیں آئے اور نہ دنیاوی جلووں اور چمک دمک سے دھوکہ کھاتے ہیں۔

اس وجہ سے معنویت اور روحانیت کا حامل انسان زیادہ مہذب اور متمدن ہے۔ لہذا ہمیشہ اسے اپنی زندگی کا ساتھی اور شریک بنانا چاہیئے اس کی دنیا اور آخرت دونوں کی تکمیل میں  معاون اور مددگار ہو اور ہمیشہ یاد الہی کے دائرہ میں محفوظ رکھے اور خداوند عالم سے تقرب کا باعث ہو۔ انسان کی خلقت کے آغاز ہی سے خدا نے اپنے بندوں کو یہی بلندی اور پستی کا یہی معیار بنایا ہے۔ دنیاوی جلوے اور اس کے پررونق مظاہر انسان کو دھوکہ دیتے اور یاد الہی سے غافل بناتے ہیں۔

ای میل کریں