مناجات شعبانیہ کے بارے میں شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں:
یہ دعا اور مناجات ائمہ معصومین (ع) کی سطح میں چنے یعنی اس کا مقام و مرتبہ بلند و بالا ہے اور اتنا ارفع و اعلی ہے کہ ائمہ معصومین (ع) ہی اس طرح کی اپنے خدا اور معبود حقیقی سے گفتگو اور راز و نیاز کرسکتے ہیں، عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ انسان اس دعا کو پڑھنے سے اسلام میں مناجات کی حقیقت اور اس کی روح کا ادراک کرتا ہے کہ اس کی روح کیا ہے۔ اس مناجات میں عرفان اور اللہ سے محبت اور عشق کے علاوہ غیر اللہ سے ناطہ توڑنے ، اس سے منہ موڑنے اور قطع تعلق کرنے کی بات بھی ہے۔
خلاصہ اس میں مکمل معنویت، بھر پور روحانیت اور خدا سے بندہ کی راز دارانہ گفتگو کا انداز اور طریقہ ہے اور اس میں ایسے ایسے جملے اور کلمات ہیں کہ ہم انسانوں کے تصور اور وہم و خیال سے کوسوں دور اور ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ "الہی ہب لی کمال الانقطاع الیک و اَنر ابصار قلوبنا ... جیسے جملوں کے معنی اور مفاہیم کا تصور بھی ہمارے وہم و خیال میں نہیں آسکتا کیونکہ ہم ایک عاصی اور گنہگار بندہ ہیں اس کے لئے دل کی نورانیت اور قلب کی پاکیزگی اور طہارت نفس اور تزکیہ باطن کی ضرورت ہے اور عصمت علیا در کار ہے۔
حضرت آیت اللہ خمینی (رح) اس مناجات کو شیعوں کا ایک قابل فخر اور مایہ ناز امتیاز اور انمول خزانہ جانا ہے اور آپ مناجات شعبانیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
ہمارے سارے ائمہ اس دعا اور مناجات کو پڑھا کرتے تھے جو اس مناجات کی عظمت اور اہمیت پر روشن دلیل ہے۔