جناب مسلم بن عقیل نے مغرب کی نماز مسجد میں پڑھی اور جب مسجد سے باہر نکلے تو آپ کے ساتھ کوئی نہ تھا۔ پھر آپ تن تنہا کوفہ کی گلیوں میں حیران اور سرگرداں چکر کاٹنے لگے یہاں تک کہ طوعہ کے دروازہ پر پہونچے اور طوعہ اپنے بیٹے کا انتظار کررہی تھی۔
جب مسلم کی اس پر نظر پڑی تو آپ نے اسے سلام کیا اور پانی مانگا۔ طوعہ پانی لائی، مسلم پانی پی کر وہیں بیٹھ گئے۔ طوعہ پانی کا برتن گھر میں رکھ کر واپس آئی تو اس نے مسلم کو وہاں بیٹھا پایا۔ عرض کیا: بندہ خدا! کیا تم نے پانی نہیں پیا؟ فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: اٹھو اور اپنے گھر جاؤ۔ مسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس عورت نے دوبارہ یہی بات کہی۔ پھر کوئی جواب نہیں ملا۔ تیسری بار بولی: سبحان اللہ اے بندہ خدا! اٹھو اور اپنے اہل و عیال کے پاس جاؤ کیونکہ اس وقت رات کے اس گھڑی میں میرا دروازہ پر تمہارا رہنا مناسب نہیں ہے اور میں بھی معاف نہیں کروں گا۔
مسلم اٹھے اور فرمایا: اے کنیز خدا! میرا اس شہر میں نہ کوئی گھر ہے نہ اہل و عیال ہیں اور نہ ہی کوئی مونس و یاور ہے۔ میں اس شہر میں پردیسی ہوں۔ کہیں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ کیا ممکن ہے کہ تم مجھ پر احسان کرو اور اپنے گھر میں پناہ دو شاید اس کے بعد میں اس کا تمہیں بدلہ دے دوں۔
اس نے کہا: تمہارا معاملہ کیا ہے؟ فرمایا: میں مسلم بن عقیل ہوں۔ کوفیوں نے مجھے دھوکہ دیا اور میری مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا اور مجھے تنہا اور بے یاور و مددگار چھوڑدیا ہے۔
طوعہ مسلم کو اپنے گھر میں لے آئی اور جناب مسلم عرفہ کی شب طوعہ کے گھر میں تھے۔