حضرات معصومین (ع) اور آپ کے ارجمند اور عالی مقام اولاد کی حکمت آمیز اور تاریخ ساز زندگی بلند و بالا درس آمیز نکتوں سے بھری پڑی ہے۔ اور آپ عظیم المرتبت ہستیوں نے اپنے فرزندوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں اخلاق و کردار سے آراستہ کرے کہ زلال معرفت کے پیاسوں کے لئے ایک مکمل نمونہ اور درس بنادیا۔ اہلبیت (ع) کی بلند و بالا ثقافت آپ کے دلدادہ بالخصوص جوان نسلوں کے لئے ایک مستحکم اصل پر استوار ہے۔ اس نوشتہ میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ حضرت ابوالفضل کی زندگی کا سن 61 کے 10/ محرم کے جانگداز واقعہ سے پہلے کی زندگی کا جائزہ لیا جائے۔
ولادت اور نامگذاری
آپ (ع) کی ولادت باسعادت 4/ شعبان سن 26 ھج ق کو مدینہ منورہ میں ہوئی ہے۔ آپ کی مادر گرامی فاطمہ کلابیہ اور آپ کے والد حجت الله اور والی اللہ علی (ع) ہیں۔
حضرت عباس کی شجاعت اور دلاوری، صلابت اور پختگی، تمدن اور ثقافت، ایثار و فا اور علم و عمل کی داستان آپ کی ولادت با سعادت سے برسوں پہلے اس دن سے شروع ہوگئی تھی جب حضرت علی (ع) نے اپنے بھائی عقیل سے ایک ایسی خاتون کے انتخاب کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ ایسی خاتون انتخاب کیجئے کہ اس شادی کا نتیجہ شجاع، نڈر اور بہادر بچہ ہو۔ اور حدود ولایت اور دین مقدس کی حفاظت کرے ۔ اس کے دفاع کی راہ میں اپنی جان کی بازی لگادی اور ایثار و وفا کا پیکر ہو۔
اس پر جناب عقیل نے "حزام بن خالد بن ربیعہ" کی بیٹی، فاطمه، کا انتخاب کیا جو بعد میں ام البنین کے نام سے مشہور ہوئی ہیں۔ جناب ام البنین ایک شجاع اور بہادر خاندان کی پاکدامن اور پاکیزہ نفس خاتون تھیں۔ ایسی پاک دل، نیک سیرت اور شجاع و بہادر خاتون کے بطن سے حضرت عباس (ع) کی ولادت ہوئی۔ آپ کی آمد پر نور سے زمانہ روشن و منور ہوگیا اور عالم اسلام کے گلستان میں ایک تازہ جان آگئی اور ہر سو بہار ہی بہار نظر آنے لگی، جدھر دیکھ نوارنیت اور صبر و وفا اور ایثار و قربانی کی خوشبو پھیل گئی۔ حضرت عباس (ع) نے اس وقت آنکھ کھولی جب وحی الہی اور کلام ربانی کی دل انگیز خوشبو اس وقت کی فضا کو خوشگوار اور معطر بنارہی تھی۔ آپ (ع) ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ایک دیندار، اطاعت شعار، صاحب کردار، صبر و استقامت اور ایثار و قربانی اور شجاعت و بہادری کے مالک گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اطاعت و بندگی، صبر و پائیداری ، اطاعت شعاری اور دینداری، وعدہ وفائی اور وفاداری خون اور رگ و ریشہ میں تھی۔ اس کے علاوہ آپ نے دین کے عظیم انسان اور علم و دانش کے نور تاباں اور شجاعت و دلیری کے بحر بیکراں کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے ہیں اگر فن حرب و ضرت میں بے مثال اور صبر و وفا اور اپنے مولا کی اطاعت میں بے نظیر ہیں تو یہ صفات آپ کو آپ کے والدین طیبین سے ورثہ میں ملی ہے۔ آپ کی ایک ایسے گھر اور خاندان میں پرورش ہوتی ہے جو دنیاوی زرق وبرق، چمک دمک، زیورات اور زینتوں سے خالی گھر تھا۔ لیکن علم و عرفان، نور ایمان اور دین و دیانت، جود و سخاوت، عبادت و اطاعت، شجاعت و بہادری ، تقوی اور پاکیزگی سے لبریز تھا اور ظلم و جور سے ٹکر لینے میں یکتائے روزگار، باطل کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں بے مثال اور حق و عدالت کا بول بالا کرنے میں لاجواب اور لاثانی گھرانا تھا۔ پھر آپ کی اندر استقامت و پائیداری، صبر و وفا اور راہ حق میں جانفشانی کا عنصر کیوں نہ ہو اور یہ عنصر مکمل طور پر آپ کے اندر موجود تھا اور اس کے نمونہ کربلا کے میدان میں جلوہ گر ہوئے ۔ حضرت علی (ع) نے حضرت عباس (ع) کو کربلا کے لئے ہی روحی، اخلاقی اور جسمانی تربیت کرکے آمادہ کردیا تھا۔
حضرت ابوالفضل العباس (ع) کی ولادت پرنور کا دن ایران میں روز جانباز کے نام سے موسوم ہے۔ حضرت عباس علمدار تاریخ انسانیت کے عظیم مجاہد اور عالم بشریت کے نامور اور بے نظیر دلاور ہیں۔ اسی لئے آپ نے اپنے والدین کی تربیت کی اثر کو کربلا کے میدان میں اپنی ایثار و قربانی کی جلوہ گاہ بنادیا۔ تاریخ آدم اور عالم میں امام حسین (ع) کے وفادار اور مخلص بھائی کی قربانیوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ عباس (ع) کے حیدری ہاتھوں اور صفدری بازوؤں نے اپنے سرخ خون سے کربلا کی تپتی زمین پر ولایت کی راہ میں عشق و ایثار کا حسین اور خوبصورت شعر لکھ دیا۔ اور دنیا والوں کو عشق و محبت اور جاں نثاری اور فداکاری کی راہ و رسم بتادی۔ حضرت عباس (ع) عشق و وفا کے عظیم معلم، تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کے امیر، شجاعت ودلیری کے بے نظیر نمونہ، اپنے رہبر اور پیشوا کی راہ کے راہرو اور روح افزا اور عطر خیز دین کے گلستان میں ایثار و وفا کا ایک گلدستہ ہیں۔
آپ نے دنیا والوں کے دلوں کو اس طرح تسخیر کیا اور اپنا گرویدہ بنایا ہے کہ چودہ سو سال گذرنے کے بعد بھی دنیا کے سارے با خبر اور آگاہ سپاہی اور مجاہد آپ کی معرفت و شریعت سے وفا کا آب زلال نوش کرتے اور علم و ادب کا درس حاصل کرتے ہیں۔ اور آپ ہی کی یاد اور آپ کے نام سے وقت کے یزیدی عمال ناموں کو پارہ کرتے اور زرین محلوں اور رنگین دسترخوانوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
امام خمینی (رح) نے بارہا اور بارہا اپنے نورانی بیانات اور ربانی کلمات سے جانبازوں اور دین و وطن پر قربان ہونے والوں کو داد و تحسین سے نوازا ہے اور انہیں قوم و ملت کی سربلندی اور سرافرازی کا سرمایہ جانا ہے۔ اور ان کے بلند و بالا مقام و مرتبہ کے سامنے خود کو معمولی سمجھ کر فرماتے ہیں:
جب میں آپ جیسے قوی دل اور بہادر سپاہیوں اور مضبوط ایمان اور جذبہ والوں کو دیکھتا ہوں کہ ان کے اندر ایسا عظیم جذبہ اور بے مثال روح کار فرماہے تو مجھے شرم آتی ہے کہ میں ایک ذمہ دار ہو کر بھی ان عزیزوں اور دین و وطن کے جانباز سپاہیوں کے بلند وبالا مقام کی توصیف اور منظر کشی سے عاجز ہوں۔ کیونکہ انہوں نے حکم حق کی بلندی اور دین اسلام اور حدود الہی اور وطن کی حفاظت کے لئے اپنے سر و تن کی بازی لگا دی ہے۔ ایسے سپاہیوں کی قدر دانی کرتے ہوئے انہیں دین اسلام کا دفاع کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔( صحیفہ امام، ج 16، ص 16)
انسان کا معیار اس کی روحانیت اور معنویت ہے لہذا خود کو با معنی اور با مقصد بنائیے، اپنے اندر معنویت پیدا کیجئے کیونکہ سعادت اور خوش نصیبی اعضاء و جوارح اور مال و منال اور جاہ و حشم کے ہونے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ سعادت انسان کی روح اور اس کے دل سے مربوط ایک امر ہے۔(صحیفہ امام، ج 18، ص 147)
مآخذ:
صحیفہ امام خمینی(رح)، امام خمینی (رح)
تاملی در نھضت عاشورا، رسول جعفریان
سردار کربلا، سید عبدالرزاق موسوی
نفس المھموم، شیخ عباس قمی
خصائص العباسیہ