حضرت عباس علمدار (ع) 4/ شعبان سن 26 ھج ق کو پیدا ہوئے۔ حضرت عباس (ع) کی ولادت نے اس عالم ہستی میں ایک دوسری نورانیت پیدا کردی اور عالم ہست و بود کو اپنے الہی اور ایمانی نور سے جگمگادیا اور حضرت علی (ع) کی شیدائیوں، چاہنے والوں اور شیفتہ لوگوں کے دلوں کو جوش و خروش اور عشق سے لبریز کردیا۔ اہلبیت (ع) کے چاہنے والوں کے چہروں پر خوشیوں کے آثار نمایاں ہوگئے اور ہر ایک امیر المومنین (ع) کے اس نو مولود کی آمد پر آپ کو مبارکباد دینے کے لئے سبقت کرنے لگا۔ امیر المومنین (ع) نے اس فرزند ارجمند اور مولود مسعود کا نام عباس رکھا۔ عباس یعنی ہمیشہ شجاعت کا شیر اور میدان جنگ کا بہادر۔
حضرت عباس (ع) کے والد علی بن ابی طالب (ع) اور ماں فاطمہ کلابیہ ام البنین (س) ہیں۔ حضرت عباس ام البنین کے بطن اطہر سے پہلی اولاد ہیں۔ آپ کی عظمت و بزرگی اور مقام و مرتبہ کی بلندی کچھ اس طرح ہے کہ ائمہ معصومین (ع) نے متعدد مقامات پر آپ کی جانثاری، قربانی اور بہادری، جانبازی اور عظمت و شخصیت کے بارے میں تاکید فرمائی ہے۔ امام سجاد (ع) کربلا میں موجود تھے اور اپنے چچا عباس (ع) کی جاں نثاری اور قربانی کے گواہ ہیں۔ حضرت عباس (ع) کے بارے میں فرماتے ہیں:
خداوند عالم چچا عباس پر رحمت نازل کرے کہ آپ اپنی قربانی اور ایثار سے اپنے بھائی کی راہ میں قربان ہوگئے یہاں تک آپ کے بازو قلم ہوگئے اور خداوند عالم نے اس کی جگہ دو بال و پر دیئے جس کے ذریعہ فرشتوں کے ہمراہ بہشت میں پرواز کریں گے۔ حضرت عباس کی خداوند عالم کے نزدیک وہ عظمت ہے کہ قیامت کے دن سارے شہداء رشک کریں گے۔
اس دن کو ایران کی تاریخ میں روز جانباز کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ جناب عباس (ع) تاریخ انسانیت کے عظیم سپاہی ہیں۔ امام خمینی (رح) نے اپنے الہی اور ربانی کلام میں جانبازوں، مجاہدوں اور ایثار کرنے والوں کو اپنی دعاؤں کے سایہ میں قرار دیا ہے اور انہیں ایرانی قوم کی سربلندی اور سرافرازی کا سبب قرار دیا ہے۔ اور اپنے بلند و بالا مقام کے با وجود خود کو ان سپاہیوں کے مقابلہ میں معمولی جانا اور فرماتے ہیں:
جب میں تم بہادروں کے جذبہ ایثار کو دیکھتا ہوں تو اس عظیم جذبہ کے سامنے شرمندہ ہوتا ہوں کہ خود کو ایک ذمہ دار اور پابند انسان جانوں اور میرا پیغام ان بلند پایہ عزیزوں کے عظیم جذبہ کی منظر کشی سے عاجز ہوں۔
حضرت عباس صرف ایک جنگجو بہادر اور سپاہی کے عنوان سے جانے نہیں جاتے بلکہ علم، تقوی اور دانش جیسے فضائل و کمالات بھی عہد طفولیت ہی سے آپ کے کمالات و فضائل کا جزء ہیں اور آپ نے اسے علوم الہی کے سرچشمہ سے حاصل کیا ہے کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے بچپنے ہی سے علمی غذا سے فیضیاب ہوئے ہیں۔ حضرت عباس (ع) نے اپنے بھائی، رہبر اور امام کی بیعت کی حفاظت کے لئے جو خداوند عالم سے عہد کیا تھا اسے وفا کر دکھایا اور دنیا میں مثال قائم کردی۔
والسلام علی العبد الصالح و المطیع للہ و رسولہ