ہماری ثقافتی تاثیروں کا راستہ بدل گیا۔ امام نے اساسی ثقافتی تبدیلی ایجاد کی ہے۔ ہم اپنے ملک کے تمام مسائل میں مغرب اور دیگر مختلف ثقافتوں سے رابطہ رکھتے تھے۔ لیکن امام (رح) کی آمد سے ثقافتی راہ بدل گئی۔ میری نظر میں ملک میں ثقافتی انقلاب پیدا ہوا۔ ثقافت کو ختم کرنا یا دوبارہ زندہ کرنا اور ثقافتی ذوق کی تبدیلی اور ثقافت ایجاد کرنے کا ذوق اور روش کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کیوں اس کے لئے اس میں بہت زیادہ ثابت قدمی کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ سڑکوں پر بھی کوئی نیا راستہ کھولنا چاہیں اگر ایک گھر اجازت نہ دے تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ سڑک چاہے جتنی لمبی ہو اس ایک گھر کی اجازت کے بغیر مفصل ہوکر رہ جائے گی۔ اب اگر ہم چند ملیوں والے ملک میں ثقافتی انقلاب لانا چاہیں تو اس کے لئے بہت پائیداری کی ضرورت ہے اور اس کے علاوہ کار شکنی بھی ہے۔ ہم مافیا کا لفظ استعمال کرنا نہیں چاہیئے لیکن ثقافتی بحث ان مسائل میں سے ہے کہ بہت سارے لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔ اس پر بھی توجہ رہے۔ سیاست کا ثقافت سے اختلاط ایک جداگانہ بحث ہے۔ بعض اوقات بعض لوگ سیاسی روش اور طرز عمل کو ثقافتی جانتے ہیں اور اس کے بعد اسی عملی کرنا چاہتے ہیں۔ بسا اوقات ثقافت ایک انتخابی مئلہ ہے، یعنی ایک مسئلہ ہے کہ شخص آکر اسے انتخاب کرے۔ ماحول اور ماحول پر اثر انداز دونوں کو ایک ظرف قرض دیں کہ اس میں جو بھی ڈالیں گے اس ظرف کی شکل اختیار کرے گا۔ ثقافت افراد اور ایک مدت کی پیداوار ہے جو ایک معاشرہ میں زندگی گذارتے ہیں۔ ثقافت کو لوگ بناتے ہیں۔ ایک علاقہ کے لوگ، ایک جگہ پر مذہبی ثقافت ہے یہ شکل اسی مظروف کا نتیجہ ہے جو اس ماحول نے آکر معین کیا ہے۔ ثقافتی اور مذہبی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ثقافت اور زور زبردستی بنا نہیں سکتے۔ ثقافت کو بنانے میں جتنا زور لگائیں گے اتنی ہی مقاومت زیادہ ہوگی اور لوگ اس موقف کا زیادہ مقابلہ کریں گے۔ ایک ثقافت اجراء اور ایک ثقافت کی تبدیلی اپنی خاص روش رکھتی ہے۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ لوگوں کی تشخیص کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ ثقافت زور قبول نہیں کرتی۔ میری نظر میں اس ملک میں اتنی غنی ثقافت دفن ہوئی ہے کہ اگر قیمتی اشیاء کے لئے خزانہ تلاش کرنے کے بجائے اگر اس ملک کے لوگوں کے آداب اور رسومات کی کتاب کی ورق گردانی کریں تو دیہات اور شہر چھوٹے ہوجائیں گے۔ اس درجہ غنی ثقافت موجود ہے کہ ضرب المثل کی تحقیق کریں کہ اس میں کتنی غنی ثقافت ہے۔ آپ سخاوت کی ثقافت کی بررسی کریں۔ معرفت کی ثقافت اور ثقافتوں میں رفتار شناسی کی تحقیق کریں۔ ماضی میں جو ہمارے نمونے اور طریقے تھے انہیں دیکھیں۔ ہمارے اسی "شہرضا" میں ایک آدمی بھی برائی کا دلدادہ نہیں تھا۔ اس شہر میں ایک بھی فقیر نہیں تھا، اگر اس شہر میں کسی کو مشکل کا سامنا ہوتا تو حل ہوجاتی تھی۔ یہ ثقافتیں اور تہذیبیں کہاں گئیں۔ مرثیہ اور سوز خوانی اور دیگر تہذیبیں کہاں گئیں۔ آج بھی یہ شہر بہت ساری تہذیبوں اور عقائد کا گہوارہ ہے۔ امام خمینی (رح) نے آکر اس زور و زبر دستی کی تہذیب کا خاتمہ کیا۔ اس بت کو توڑ ڈالا۔ اگر ہم امام کے ماننے والے ہوں تو امام کا نظریہ تھا جو لوگ چاہتے ہیں امام ہمیشہ لوگوں کی بات کرتے کبھی بھی امام نے حکومت اور اقتدار کی بات نہیں کہی ہے۔ امام (رح) ہر جہت سے عوامی خواہشوں کا احترام کرتے تھے۔ کہیں ہر زور و زبردستی کی بات نہیں کی۔ بہر حال ملک کی اندر بہت سارے آداب اور سلیقے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے اپنے سلیقے سے چلے گا تو ملک میں افراتفری مچ جائے گی۔
خلاصہ امام خمینی (رح) ہر قسم کے بت کو توڑ دیا، تمام باطل اور غلط آداب و رسوم کو معاشرے سے ختم کرنے کی کوشش کی۔ ہمیشہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خواہشات اور احترام کی تاکید کی، اتحاد و یکجہتی کا درس دیا۔ انتشار اور تفرقہ سے دوری کا سبق سکھایا اور ہر ضد اور ہٹ دھرمی کی باتوں یا آباء و اجداد کی اندھی تقلید سے منع فرمایا اور ایک اسلامی اور انسانی اصول کی پابندی کا درس دیا۔