اقتصاد

اقتصاد کے سلسلے میں امام خمینی(ره) کا مجموعی نظریہ

اسلام کی اقتصادی حکمت عملی اسی صورت میں اسلام کی منظور نظر عدالت کی برقراری کا راستہ ہموار کر سکتی ہے

عدالت کی برقراری کی نوعیت کے حوالے سے ہم کسی حد تک امام خمینی(ره)  کے اقتصادی موقف سے آگاہ ہوچکے ہیں  اور جیسا کہ امام خمینی(ره)  کے کلام سے ثابت ہوتا ہے آپ نے اسلامی نظریات کی بنیاد پر عدالت کی برقراری کو نہ فرد کو دولت کے ڈھیر لگانے کی آزدی کے مترادف قرار دیا ہے اور نہ ہی تمام افراد کو بالکل ایک جیسا قرار دیا ہے بلکہ آپ افراد  کے لئے اپنی استعداد ،قابلیت اور تخلیق و ایجاد کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے حق اور آزادی و اختیار کے قائل ہیں  اور اس کے ساتھ ساتھ آپ معاشرے میں  پائی جانے والی غربت اور محرومیت کو ایک اسلامی نظام کے شایان شان نہیں  جانتے ہیں  ۔  در حقیقت امام خمینی(ره)  کے نظرئیے کے اعتبار سے افراد کی اقتصادی سرگرمیوں  کے لئے اسباب فراہم کئے جائیں  کہ جن سے معاشرے میں  پائی جانے والی شدید طبقاتی خلیج کا خاتمہ ہوسکے اور بقول آپ کے ’’ہر ایک کے لئے درمیانے درجے کی زندگی ‘‘ کا سامان فراہم ہوسکے۔  امام خمینی(ره)  اقتصاد کے بارے میں  اسلام کے مجموعی نظرئیے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’۔۔۔۔  اسلام نہ تو مظلوم طبقات کو محروم کرنے والے بے حد و حساب ظالم سرمائے کی اجازت نہیں  دیتا ہے بلکہ قرآن و سنت نے اس کی شدید مذمت کی ہے اور اس کو معاشرتی عدالت کے منافی جانتا ہے اور نہ ہی اسلام کمیونزم ، مارکسیزم اور لینن ازم جیسی حکومتوں  کی مانند ہے کہ جو فردی ملکیت کی مخالف اور اشراکیت کی قائل ہیں  ۔۔۔بلکہ اسلام ایک اعتدال پسند حکومت ہے جو فردی ملکیت کو تسلیم کرتی ہے اور محدود پیمانے پر ملکیت اور خرچ کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اگر کماحقہ اس پر عملدر آمد کیا جائے تو سالم اقتصاد کے پہیے حرکت میں  آجائیں  گے اور معاشرتی عدالت کہ جو ایک سالم حکومت کا لازمہ ہے بر قرار ہوجائے گی‘‘۔  (صحیفہ امام، ج ۴، ص ۱۱۰)

 امام خمینی(ره) معاشرے میں  معاشرتی عدالت کی برقراری کے سلسلے میں  اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر قائم اقتصادی نظام کے قائل ہیں  ۔  آپ اسلامی نظرئیے کی تاکید کرتے ہوئے اسے سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظریات سے الگ کرتے نظر آتے ہیں  ۔  اس سلسلے میں  آپ فرماتے ہیں  :

’’۔۔۔  اگر ایک مربوط مکتب کی صورت میں  اسلام کے مکمل ڈھانچے کو  پیش نظر رکھ کر اسلام کے اقتصادی قوانین کا جائزہ لیا جائے اور ان پر مکمل طور پر عملدر آمد کیا جائے تو یہ بہترین امکانی شکل ہوگی۔  یہ قوانین غربت کا بھی خاتمہ کردیں  گے اور ایک طبقے کے دولت پر قابض ہونے کے باعث ان کی بے راہ روی کے بھی سد راہ ہوں  گے۔  نتیجتاً پورا معاشرہ خرابی و تباہی سے محفوظ ہوجائے گا اور یہ قوانین انسانوں  کی صلاحیتوں  ، قوت تخلیق و ایجاد کے نکھار سے بھی مانع نہیں  ہوں  گے ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۱۹)

بنا بر ایں  جیسا کہ اس سے قبل بھی اشارہ کیا جاچکا ہے کہ امام خمینی(ره)  کے نزدیک اسلام کی اقتصادی حکمت عملی اسی صورت میں  اسلام کی منظور نظر عدالت کی برقراری کا راستہ ہموار کر سکتی ہے جب اس میں  محروموں  مقابلے کو پیش نظر رکھا گیا ہو۔ در حقیقت امام خمینی(ره)  نے پالیسی سازی میں  دولت کی بنیاد پر افراد کے اثر و رسوخ حاصل کرنے کی مذمت کی اور اس کو اسلامی نظرئیے کے منافی قرار دیا۔

’’دولتمندوں  کو ہرگز اپنی دولت کی بنیاد پر حکومت حکام اور اسلامی ملک کا انتظام چلانے والوں  میں  اثر و رسوخ حاصل نہیں  کرنا چاہئے۔ ان کو اپنی دولت کو غرور و تکبر کو وسیلہ نہیں  بنانا چاہئے اور ناداروں  ، غریبوں  اور زحمت کشوں  پر اپنے افکار اور منشا کو مسلط نہیں  کرنا چاہئے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۲۰، ص ۲۵)

مذکورہ عبارت امام خمینی(ره)  کے نظرئیے کی ایک اور خصوصیت کو بیان کر رہی ہے ، یعنی آپ کے نزدیک جہاں  اقتصادی اعتبار سے معدودے چند افراد کے ہاتھوں  میں  دولت جمع ہونے کی روک تھام کی جانی چاہئے وہیں  آپ اس نکتے کو بھی صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں  کہ ’’معاشرے کا معاشی نظام ‘‘  پالیسی سازی اور اقتصادی حکمت عملی کے امور میں  دولتمندوں  اور امراء کے اثر و رسوخ کے دائرے سے باہر ہونا چاہئے۔  دوسرے لفظوں  میں  عدالت کے  بارے میں  امام خمینی(ره)  کا نظریہ اس بات کی اجازت نہیں  دیتا ہے کہ افراد اپنی دولت کے بل بوتے پر ممتاز معاشرتی مقام حاصل کریں ۔ اس کے علاوہ  یہ نظریہ اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے دولت کو وسیلہ بنانے کی بھی نفی کرتا ہے۔ اس نکتے کو امام خمینی(ره)  نے معاشرتی معاشرتی احترام میں  عدالت کے میدان میں  پیش نظر رکھا ہے۔ آپ کا نظریہ ہے کہ دولتمند اور غریب افراد معاشرتی احترام کے لحاظ سے مساوی اور  ایک جیسے ہیں  اور دولت و ثروت افراد کے احترام کی بنیاد نہیں  ہے بلکہ امام خمینی(ره)  نے احترام کے اختلاف کا جو معیار پیش کیا ہے وہ معنوی ہے جو کہ افراد کے تقویٰ  اور پرہیز گاری سے عبارت ہے ۔  (برائے مثال آپ صحیفہ نور ، ج ۵، ص ۲۳۳ و ۲۳۸؛ ج ۶، ص ۱۶۴؛ ج۷، ص ۱۳۹ و ۲۵۴ اور ج ۸، ص ۱۰۲ کی جانب رجوع کر سکتے ہیں  )۔

ای میل کریں