مسجد استقامت، اجتماعی اور ثقافتی حرکت کا مرکز ہے

مسجد استقامت، اجتماعی اور ثقافتی حرکت کا مرکز ہے

تاریخ اسلام میں مسجد، صلاح مشورے، تعاون اور اہم اجتماعی، سیاسی اور نظامی مسائل کے بارے میں فیصلوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔

تاریخ اسلام میں مسجد، صلاح مشورے، تعاون اور اہم اجتماعی، سیاسی اور نظامی مسائل کے بارے میں فیصلوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے صوبہ تہران کی مساجد کے ائمہ جماعات سے ملاقات میں مساجد کو اجتماع، صلاح مشورے، استقامت، منصوبہ بندی اور اجتماعی اور ثقافتی حرکت کا مرکز قرار دیا اور انقلاب اور اسلامی نظام کے اصلی تکیہ گاہ کے عنوان سے عوام کے ایمان کو تقویت دینے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے مزید فرمایا:

موجودہ مسائل کے سامنے اپنی ذمہ داری کی تشخیص کےلئے ضروری ہےکہ وسیع اور ثقافتی نگاہ سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرے کی مجموعی حرکت کی تحلیل اور جائزہ لیا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے یوم مسجد کے تعین کے فلسفے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

یہ دن بنیادی طور پر اسلامیہ جمہوریہ ایران کے انقلابی موقف و استقامت اور صیہونیوں کے ہاتھوں مسجد الاقصیٰ کو آگ لگائے جانے کے بعد اور امت مسلمہ کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت کا مقابلہ کئے جانے کے ہدف اور مقصد سے او آئی سی میں منظور کیا گیا اور ہمیں چاہئے کہ اسی زاویے سے اس پر توجہ کریں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مسجد کی تشکیل کو ذکر، نماز اور خداوند متعال پر توجہ کے محور سے عوامی رابطوں اور اجتماعات کےلئے اسلام کا ایک ابتکار قرار دیا اور فرمایا:

تاریخ اسلام میں مسجد، صلاح مشورے، تعاون اور اہم اجتماعی، سیاسی اور نظامی مسائل کے بارے میں فیصلوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا:

مسجد کو انسان سازی، دل و دنیا کی تعمیر، دشمن سے مقابلے، بصیرت میں اضافے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے احیاء کا زمینہ فراہم کرنے والا مرکز ہونا چاہئے۔ بنابرایں، نماز کی اقامت کے علاوہ حق و عدل کے قیام اور دین بیان کرنے اور احکام دینی کی تبلیغ جیسی دیگر ذمہ داریاں بھی امام جماعت کی ہیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امام جماعت کو مسجد کا محور قرار دیا اور فرمایا: جوانوں کے سوالات کے جوابات دے کر مسجد کا حق ادا کیا جانا چاہئے۔

آپ نے اسلامی انقلاب کے اوائل میں مسجد کو مرکزیت دینے کو امام خمینی[رح] کے عظیم کارناموں میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا:

مساجد کو استقامت، خاص طور پر ثقافتی استقامت کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا: انقلابی اسلام اور اسلامی انقلاب کی برکت سے عالمی تسلط پسندوں کا اصل ہدف یعنی اس خطے پر حکمرانی کا خواب چکنا چور ہوگیا اور امریکہ مغربی ایشیا میں مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے استقامت میں اضافے اور ثقافتی حصار کو مضبوط بنانے میں مسجدوں کے کردار کو بہت اہم قرار دیا اور فرمایا: سیکولر اسلام اور عبادتوں میں محصور ہو کر رہ جانا، چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی حتی اس کے بے شمار طرفدار ہی کیوں نہ ہوں، تسلط پسند طاقتوں کی دشمنی کا سبب نہیں ہیں، عالمی استکبار کو جس چیز سے دشمنی ہے وہ مقتدر اسلام ہے کہ جو سیاسی- معاشرتی نظام کو تشکیل دیتا ہے اور ملتوں کو دنیوی اور اخروی حقیقی سعادت کی سمت ہدایت کرتا ہے۔

 

ماخذ: http://www.leader.ir/ur سے اقتباس

ای میل کریں