علامہ اقبال (ره) اور امام خمینی(ره) دین کی گہری معرفت کی بنیادوں پر مسلمان مرد کے اجتماعی تشخص کو اس کے دینی تشخص میں منحصر سمجھتے تھے، قومی تشخص میں نہیں ۔
قومی خود آگاہی، خود غرضی سے جدا نہیں ہے، یہ دونوں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، خود غرضی سے تمام عارضی اثرات، مثلاً تعصب، جانبداری کا احساس اپنے نقص سے چشم پوشی، عجب وریا اور خود پسندی یہ سب قومی خود آگاہی میں پایا جاتا ہے اور یہ اخلاقی پہلو سے بھی عاری ہے ۔
امام خمینی(ره) قوم پرستی اور نسل پرستی کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسلام کے منافی سمجھتے ہیں :
’’کیاہمیں اسلام کی محض اس بنا پر مخالفت کرنا چاہئے کہ وہ عرب کی سرزمین سے آیا ہے؟ کیا یہ وہی نسل پرستی نہیں ہے جس کی بنا پر یورپی ہمیں استعماری زنجیروں میں جکڑنا اور عرب، عجم اور ترک قومیتوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں ‘‘۔ (صحیفہ امام خمینی(ره)، ج۱۸، ص ۲۱۶)
اقبال (ره) اور امام خمینی(ره) دونوں مسلمان شخص کی قومیت کی تشریح ثقافتی، نظریاتی اور دینی قومیت کے معنی میں کرتے ہیں :
ملت از یک رنگی دلہاستی روشن از یک جلوہ این سیناستی
قوم را اندیشہ ہا باید یکی در ضمیرش مدعا باید یکی
جذبہ باید در سرشت او یکی ہم عیار خوب و زشت او یکی
گرنباشد سوز حق در ساز فکر نیست ممکن این چنین انداز فکر
ملت مارا اساس دیگر است این اساس اندر دل ما مضمر است
(دیوان اقبال، رموز بیخودی، ص۶۳)
اقبال (ره) نے ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں اسلامی حکومت کے قیام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’اسلامی حکومت ایک معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے اور اسلام نے ’’روسو‘‘ سے برسوں پہلے اس کا اعلان کیا ہے اور اخلاقی طور پر آئیڈیل حکومت میں تبدیل کیا ہے۔ اسلام انسان کو ایک خاکی مخلوق نہیں سمجھتا جو زمین کے اس حصے یا اس حصے میں محدود ہو بلکہ معاشرتی میکانزم کی اصطلاح میں انسان کو ایک معنوی اور روحانی مخلوق قرار دیا جاتا اور اسلام کا نظریہ، یہ ہے کہ اس میکانزم میں انسان ایک جاندار اور زندہ عنصر کی حیثیت رکھتا ہے جس کے اوپر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ‘‘۔ (مقدمہ دیوان اقبال، ص۴۳) اسی لئے (نئی) اسلامی حکومت کا نام پاکستان رکھا گیا۔
امام خمینی(ره) بھی ایک کامل اور سالم انسان کو ایسے معاشرے میں ڈھونڈتے ہیں جو مسلمان کی تربیت اور پرورش کرے، چنانچہ ان کا ارشاد ہے:
’’دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات دو قسم کے ہیں : ایک اسلامی انقلاب ہے اور دوسرا غیر اسلامی انقلاب۔ اگر انقلاب غیر اسلامی ہو تو انقلاب آنے کے بعد کسی قسم کے قواعد و ضوابط کے بغیر لوگوں کے ساتھ جس طرح چاہیں سلوک روا رکھا جاتا ہے لیکن اگر انقلاب اسلامی ہو یعنی اسلامی نظریہ اور احکام کی بنیادوں پر آیا ہو تو ازل سے لے کر ابد تک یہ اسلامی ہونا چاہئے اور اسلامی احکام کے مطابق ہونا چاہئے (جس طرح یہ انقلاب اور اس کے اثرات اسلامی ہیں )۔ فتح اس کو نہیں کہتے کہ ہم صرف طاغوت کا خاتمہ کریں، اصل فتح یہ ہے کہ ہم ایک الٰہی اور اسلامی انسان میں تبدیل ہوجائیں ۔ ہمارے تمام اعمال وافعال، عقیدہ و نظریات اور ہمارے اخلاق و اطوار سب کے سب اسلامی ہوں ‘‘۔ (صحیفہ امام خمینی(ره)، ج۸، ص ۲۷۱)
اگرچہ عالم اسلام کے یہ خیر اندیش رہنما اسلام کے آئیڈیل معاشرے کی تشکیل کے درپے تھے اور وہ جغرافیائی سرحدوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے بلکہ نظریاتی سرحدوں کو اسلامی ملک کا معیار قرار دیتے تھے لیکن عملی طور پر ایسا معاشرہ تشکیل نہیں پا سکا ہے تاہم ، ہم نہیں کہہ سکتے کہ ایسا ممکن نہیں ہے بلکہ ابھی تک ایسا معاشرہ تشکیل نہیں پا سکا ہے اور اس کی تشکیل کے لئے فضا بھی سازگار نہیں ہوئی ہے۔
اگر ہم عالم اسلام میں سید جمال الدین (ره)، اقبال (ره) اور امام خمینی(ره) کے افکار و نظریات کو عملی جامہ پہنانا چاہیں تو انہیں پہلے (ایران، پاکستان، عراق اور مصر وغیرہ جیسی )خود مختار اسلامی اکائیوں میں نافذ کرنا پڑے گا اس کے بعد اگر اسلامی معاشرہ سیاسی سطح پر عروج تک پہنچا تو ایک متحدہ ملک قائم کر سکیں گے۔