ملت ایران کے اسلامی انقلاب میں امام خمینی کا کردار بے بدل اور امتیازی تها ۔امام خمینی نے خدا کی ذات پر بهروسے اور ملت ایران کی حمایت سے اسلام ناب محمدی ص کے احیا اور عدل و انصاف کی برقراری کی خاطر ظالم پہلوی حکومت کے خلاف قیام کیا اور خدا کے فضل سے یہ عوامی انقلاب کامیاب ہوا ۔
عالمی اردو خبررساں ادار ے نیوزنورنے ایرانی ذرائی ابلاغ تقریب نیوز کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ملک کے معروف اہلسنت مفتی مولوی اسماعیل زہی ،کہ جو دارالعلوم زاہدان کے مدیر اور اس شہر میں اہل سنت کےامام جمعہ ہیں نےانقلاب اسلامی کے سلسلے میں امام خمینی کے کردار ،شیعہ سنی اتحاد ،اور اسلامی بیداری کےسلسلے میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے کردار کے موضوع پر ایک بات چیت کی کہ جس کو ہم ذیل میں ذکر کر رہے ہیں:
جناب مولوی، صاحب، آپ کی خدمت میں سلام عرض کرنے کے بعد میری خواہش ہے کہ آپ، ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی میں امام خمینی کے کردار پر روشنی ڈالیں ؟
انقلاب اسلامی کی کامیابی امام خمینی کی انتهک جدوجہد ،وسعت قلبی اور دور اندیشی کی مرہون منت ہے اور چونکہ امام خمینی کی نگاہ بہت بلند تهی لہذا وہ پوری ملت ایران کو کہ جو پہلوی حکومت کے ظلم و استبداد ،خود غرضی ،دین کی مخالفت ،سے بےزار تهی متحد کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان کو اپنے گرد جمع کر لیا ۔امام نے ملت کے تمام اصناف ،،جیسے حوزوی ،دانشگاہی ،اقوام و مذاہب اور لوگوں کے مختلف طبقات کو پہلوی حکومت کو سرنگوں کرنے کی دعوت دی ،اور ایران کے لوگوں کو آزادی، استقلال ،اجرائے عدالت ،برابری اور برادری پر مبنی مستقبل کی خوشخبری دی ۔ایران کی قومی ثروت کہ حکومتیں جس سے ناجائز استفادہ کر رہی تهیں ،اس کو ملت ایران کو واپس دلایا ،اور یہ کام اتنا بڑا تها کہ کوئی دوسرا اس کو انجام نہیں دے سکتا تها ۔
شیعہ و سنی اتحاد کے بارے میں امام خمینی کا نظریہ کیا تها؟
چونکہ امام خمینی کو جلا وطن کر کے عراق بهیج دیا گیا تها ،وہ اہل سنت کے ساته اچهے روابط رکهتے تهے ،اور یہاں تک کہ مراسم حج میں بهی ،ان کے چوٹی کے علماء کے ساته امام کی ملاقات ہوئی تهی ،اور فلسطین کے مسئلے اور اسرائیل کے مظالم کے بارے میں وہ علماء کے ساته بات کیا کرتے تهے اور جیسا کہ سننے میں آیا ہے اسی زمانے میں حج کے موقعے پر آپ نے منی میں فلسطینیوں کے لیے امداد جمع کی ۔امام کی نظر مذہبی تعصبات اور صنف پسندی سے اوپر اٹه کر تهی ،وہ پوری دنیا کے بارے میں سوچتے تهے ،وہ دنیا کے تمام مسلمانوں اور کمزوروں کے بارے میں سوچتے تهے اور دنیا کی تمام کمزور اور مظلوم قوموں کا دفاع کرتے تهے ۔امام خمینی کے یاگار جملے یہ ہیں کہ شیعہ اور سنی بهائی ہیں اور یکساں حقوق کے مالک ہیں ،یا جو بهی شیعہ اور سنی میں اختلاف ڈالتا ہے وہ نہ شیعہ ہے نہ سنی ،یا وہ لوگ جو شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف ڈالتے ہیں وہ جاہل ہیں ۔
آج بهی مقام معظم رہبری (امام خامنہ ای) جو انہی بزرگوار کے راستے پر چل رہے ہیں مقدسات اہل سنت کی توہین اور ازواج مطہرات کی اہانت کے حرام ہونے کے بارے میں ان کا تاریخی فتوی امت اسلامی کے اتحاد کے سلسلے میں یادگار اور پائدار ہے ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ شیعہ سنی اور مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرنا آج صہیونیوں اور عالمی استکبار کا منصوبہ ہے کہ جو اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ اسلام کا مقابلہ کرنے اور اپنے مفادات حاصل کرنے اور اسرائیل کو محفوظ کرنے کا بہترین راستہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانا ہے جس پر ان کی ایک دمڑی بهی خرچ نہیں ہوتی ،بلکہ وہ اپنے ہتهیاروں اور جنگی سازو سامان کو آسانی کے ساته بیچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ جاگ جائیں اور دشمنوں کے ناپاک منصوبوں کا شکار نہ بنیں اور ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے قانونی حقوق کی کهلے دل سے رعایت کریں اس وقت دنیائے اسلام کو اختلاف کی وجہ سے بہت بڑی مصیبتوں کا سامنا ہے عقلاء اور مفکرین کو اس کا علاج نکالنا چاہیے ۔
ایران کے اسلامی انقلاب اور امام خمینی کے نظریات کا علاقے میں اسلامی بیداری کے ساته کیا رابطہ ہے ؟
اس مسئلے میں کوئی شک و تردید نہیں ہے کہ اسلامی بیداری جو ایران میں آئی اس نے دنیا میں بیداری کو جنم دیاخاص کر دنیائے اسلام پر اس نے بہت اثر ڈالا ۔لہذا تمام وہ انقلابات جو اسلامی ملکوں میں رونما ہوئے ہیں وہ امام خمینی کی رہبری میں ملت ایران کی بیداری سے متاثر ہیں ۔
دنیائے اسلام کی مشکلات کو حل کرنے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے ؟
ہماری نظر میں مشکلات کی سب سے بڑی وجہ، خدا کی عظیم الشان کتاب ،قرآن ،اور سنت وسیرت پیغمبر سے دوری ہے ۔جو قوم بهی اپنی تہذیب اور تعلیم سے بیگانہ رہے گی وہ سرگرداں رہے گی ،پہلی چیز مسلمانوں کی اپنی اصل کی جانب ،یعنی رسول خدا ص ،صحابہ کرام اور اہل بیت (ع) کے دور کی جانب واپسی ہے ،اور دوسرے مرحلے پر مسلمانوں کو بیدار رہنا چاہیے اور دشمن کے منصوبوں کے بارے میں با خبر رہنا چاہیے ،اختلاف اور تفرقے سے دور رہنا چاہیے، اور تقوی، پرہیزگاری اور ایک دوسرے کے احترام کی بنیاد پر ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت پر متحد رہنا چاہیے ۔