سیاست ومعاشرت میں تغیر آنے کے سلسلہ میں دو راہ حل بیان کئے گئے ہیں:
۱۔ راہ حل فوقانی [From the above] جو نظام حاکم کے افراد پر اطلاق ہوتا ہے۔
۲۔راہ حل تحتانی [ From the below] جو عام افراد (عوام) پر اطلاق ہوتا ہے۔
دونوں مذکورہ راہ ہائے حل کی شمولیت ظاہری وعلامتی یا اساسی وبنیادی تغیرات کے مصادیق پر ہوسکتی ہے۔ انقلاب فوقانی یا اصلاح، علامتی تغیرات کو بیان کرنے والا ہے اور انقلاب جو کہ اقتدار کی تبدیلی کے مترادف ہے، اقتدار میں شامل اپنے حریفوں کو دھیرے دھیرے اقتدار سے الگ کرنے کی معنوں میں ہے۔
تحتانی راہ حل میں شورش اور قیام حکمراں پارٹی کی تبدیلی کے بغیر بعض دوسری جزوی تبدیلیوں پر استوار ہے بنیادی راہ وہی حل انقلاب ہی ہے کے ذریعہ نظام حاکم کے سیاسی اداروں، نظام کے جواز اقتصادی روابط وغیرہ میں شرکت کے ذریعہ اساسی، بنیادی وعمیق تبدیلی کی جاتی ہے اس مطلب پر توجہ کرتے ہوئے کہ حضرت امام خمینی ؒ اہداف و وسائل کے درمیان گہرے رابطے کے قائل تھے۔ آپ یقین رکھتے تھے کہ بلند ووسیع اہداف، مقاصد وعظیم افکار ونظریات کیلئے عظیم مشکلات وزحمات برداشت کرنا پڑتی ہیں۔(صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۵۳)
آپ تحتانی تبدیلی کو فوقانی تبدیلی پر ترجیح دیتے تھے چونکہ آپ عظیم مقاصد واہداف کے مالک تھے۔ حضرت امام خمینی ؒ اس کیلئے اہمیت قائل تھے جو معاشرے کے بطن سے وجود میں آئی ہو اور اس کی تشکیل عوام کے ارادے، خواہش وضرورت کی بنا پر ہو۔(صحیفہ امام، ج ۱۶، ص ۱۰)
لہذا انقلاب کے سلسلہ میں حضرت امام خمینی ؒ کی نظر Maximalist ہے جس کا لازمہ تمام سیاسی اقتصادی، سماجی، ثقافتی آئیڈیالوجیکل افعال وبنیاد میں تعجب انگیز تبدیلی ہے جبکہ Minimalist اور Reductionist نظریہ کے طرفدار انقلاب کو صرف اقتدار کی تبدیلی کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ البتہ حضرت امام خمینی ؒ انقلاب کو معاشرتی صورتحال کی تبدیلی کا واحد راستہ نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ آپ ہر چیز سے قبل حکمراں نظام کیلئے اصلاح ونصیحت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ آپ مسالمت آمیز طریقہ سے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ نصیحت، بحث وجدل کارگر نہ ہو تو موجود وضع کی اصلاح کیلئے ابتدائی قدم اٹھانا ہے تاکہ نظام کو برخاست کیا جاسکے۔ حضرت امام خمینی ؒ نظام حاکم کی اصلاح کے سلسلہ میں قاعدہ تدریج کا نظریہ رکھتے ہیں یعنی اگر حکمراں نصیحت وارشاد اصلاح نظام ورفتار میں تبدیلی نہ کریں تو انقلاب ناگزیر ہے، امام خمینی ؒ کی نظر میں اصل ہدایت واصلاح ہے، لہذا اگر حاکم نظام اصلاح وارشاد کا خیر مقدم کرتا ہے تو ہدف حاصل ہو رہا ہے لیکن نظام حاکم، اسلامی اصولوں کے سلسلے میں بے توجہی اور خطا کا شکار ہے تو انقلاب جائز بلکہ واجب ہے، اس بنا پر اگرچہ حضرت امام خمینی ؒ تہاجمی (حملہ ور) عقیدے کے حامل تھے یعنی پہلوی حکومت کو سرنگوں کر کے جدید مبانی واصولوں والی اسلامی حکومت کو برقرار کرنا چاہتے تھے لیکن دفاعی نظریہ کو اولین راہ حل جانتے تھے یعنی حکومت وقت کو سرنگوں کئے بغیر نصیحت واصلاح کے ذریعہ اسلامی اصولوں کی حفاظت واسلامی احکام پر عمل کی فضا ہموار کی جائے کیونکہ حکومت وقت کی سرنگونی ملک کے نظم ونسق اور امن عامہ کیلئے نقصان دہ ہے، حالانکہ آپ ملک کے آئین کو ناقص سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود قاعدہ الزام {الزموہم بھا الزموا علیہ اقسہم} سے استناد کرتے ہوئے اس کے پابند تھے، موجود صورتحال سے مقابلہ کے سلسلہ میں حضرت امام خمینی ؒ کی سیاست، شرعی والٰہی ذمہ داری پر عمل کرنے پر استوار تھی۔ آپ کا جذبہ قیام ذاتی مفادات وخواہشات نفسانی کی بنا پر نہ تھا بلکہ قرآن کی بنیاد پر تھا، آپ اس آیت {قل انما أعظکم ۔۔۔ مثنیٰ وفرادیٰ}کی روشنی میں تمام سیاسی وسماجی گروہوں اور تحریکوں کو قیام کی دعوت دیتے تھے۔ آپ فردی واجتماعی سب راہ حل کے استفادہ کو ضروری سمجھتے تھے۔
حضرت امام خمینی ؒ انقلاب سے قبل ایرانی عوام کے اجتماع کو اسلامی نعروں کے ذریعہ اسلامی وسیاسی شعور عطا کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلامی انقلاب کیلئے راستہ ہموار ہوسکے اور اس طریقہ وذریعہ سے عادل اسلامی حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ آپ اس مقدس ہدف کے حصول کیلئے سب شرافت مندانہ اصولوں سے استفادہ ضروری سمجھتے تھے، چونکہ تحریک کی ماہیت اسلامی تھی لہذا مارکسسٹ وبائیں بازو کی تنظیموں سے سیاسی اتحاد کے مخالف تھے، آپ فرماتے تھے: ہم شاہ کو سرنگوں کرنے کیلئے بھی مارکس ازم سے اتحاد نہیں کرسکتے ہیں، چونکہ آپ کا مقصد وہدف فقط شاہ کو نابود کر کے حکومت قائم کرنا نہ تھا بلکہ ایرانی معاشرے کو فکری وروحی اعتبار سے تبدیل کرنا تھا۔ آپ نہ صرف انقلاب کو ضروری سمجھتے تھے بلکہ اس کا دائرے دوسرے اسلامی ممالک میں تک پھیلا دینے کی تاکید فرماتے تھے۔ اس آیت {ولتکن۔۔۔ ینہون عن المنکر}کی روشنی میں ام القرائے اسلام (ایران) کے افراد کو دعوت فرماتے تھے کہ دنیا میں اسلامی حاکمیت اور انقلاب برآمد کرنے کی سعی وکوشش کریں۔ آپ اس سلسلہ میں بھی تدریجی عمل کے اصول پر کاربند تھے اور اسلام کے نفاذ کیلئے فوقانی راہ حل کو نظرانداز نہیں کرتے تھے، بلکہ اسلامی اصول واقدار کی برقراری کیلئے اولین راہ حل تصور فرماتے تھے، لہذا آپ نصایح کے ذریعہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو صحیح اسلامی اصول پر چلنے اور الٰہی احکام کے اجراء کی دعوت دیتے تھے، انقلاب فوقانی کے اصول کو اپناتے تھے اور اس کے کارگر ہونے کی صورت میں مسلمان ملل کی نجات اور اسلامی اصول واقدار کی حفاظت کا واحد راستہ انقلاب سمجھتے تھے۔ امام خمینی ؒ کے افکار سے جو نظریہ استنباط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انقلاب سب سے پہلے حکومت اسلامی کی بنا ام القریٰ میں واقع ہو اور اس سلسلہ میں آپ ذہنی وفکری انقلاب کو عینی انقلاب پر مقدم سمجھتے تھے۔ ام القریٰ میں استحکام نظام کے بعد دوسرے اسلامی ممالک میں انقلاب برآمد کرنے کیلئے افکار واذہان کے بیدار ہونے کو شرط لازم جانتے تھے تاکہ ظلم کی حکومت سے خارج ہونے کیلئے پیش خیمہ ثابت ہوسکے۔ (صحیفہ امام، ج ۱۱، ص ۳۳۸)
حضرت امام خمینی ؒ انقلاب بیرونی یا مادی تحقق کے ہمراہ درونی انقلاب کو بھی اسلامی تحریک کی کامیابی کی بنیاد شرط قرار دیتے ہیں۔ آپ کے نظریۂ حد اکثر کے مطابق سیاسی، اقتصادی سماجی ارکان میں بنیادی تبدیلی کے ساتھ ساتھ فکری آئیڈیالوجیکل، عقیدتی، ثقافتی امور میں بھی بنیادی تبدیلی انقلاب کیلئے ضروری ہے۔ آپ کا انقلاب کے سلسلہ میں معنوی پہلو، محتوای انقلاب کی تاکید کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ انقلاب کو ایک فکری تحریک کی ضرورت ہے۔( صحیفہ امام،ج ۱۱، ص ۴۸۷)
کیونکہ غیر عقیدتی آئیڈیالوجیکل انقلاب، افراد کی درونی وروحی تبدیلی کا سبب نہیں بنتا بلکہ ڈکٹیٹر شپ واستبداد میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ حضرت امام خمینی ؒ کی نظر میں اسلامی نظام روحی تحول کا سبب ہے کیونکہ عظیم ہدف کا حامل اور اسلامی احکام کے اجراء کا ضامن ہے۔ اگر اقوام عالم کا نصب العین اسلامی نظام ہوجائے تو سماج ومعاشرے میں اتحاد ووحدت اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوجائے گی جس کے سائے میں روحی تحول، خدا پر اعتماد، غیر خدا سے دوری اور شجاعت وشہادت کے خیر مقدم جیسی سعادتیں وجود میں آئیں گی اور بیرونی انقلاب کی کامیابی میں مدد ملے گی۔ حضرت امام خمینی ؒ کی نگاہ میں عام افراد کے ادراک وافکار میں تبدیلی انقلاب کا لازمہ ہے، بین الاقوامی روابط میں رائج فکر، واقعیت وحقیقت کو درک کرنا خود واقعیت وحقیقت سے اہم ترہے کی بنا پر آپ کا عقیدہ یہ تھا کہ عوام کا سماجی ومعاشرتی صورتحال کا تصور، انقلاب کا سبب ہے نہ کہ سماجی ومعاشرتی صورتحال کی حقیقت۔( صحیفہ امام، ج ۱۱، ص ۹۸)
لہذا انقلاب کے سلسلہ میں حضرت امام خمینی ؒ کے نظرئیے کو ادراکی اپروچ سمجھا کیا جاسکتا ہے۔