ایران اور پاکستان عسکری سفارتکاری کے راستے پر گامزن
ارنا- حالیہ سالوں کے دوران، پاک ایران اعلی فوجی حکام کے دوروں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور آج کل یہ پاکستانی آرمی چیف کا دوسرا سرکاری دورہ ایران ہے جس سے باہمی عسکری سفارتکاری کے فروغ کیلئے دو ہمسایہ اور دوست ممالک کا پختہ عزم ظاہر ہوتی ہے۔
بطور پاکستان کی مسلح افواج کے نمبر وان شخص کے "جنرل قمر جاوید" کے حالیہ دورہ ایران سے بعض خطی اور غیر خطی ممالک کیجانب سے دو ہمسایہ اور دوست ممالک کے تعلقات میں ڈراریں ڈالنے کی سازشوں کی عدم کامیابی ظاہر ہوتی ہے۔
یہ پاکستانی سپہ سالار کا دوسرا سرکاری دورہ ایران ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی اکتوبر مہینے کے دوران ایک اعلی سطحی عسکری وفد کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ ایران کا دورہ کیا اور ایرانی مسلح افواج کے اعلی حکام سمیت صدر مملکت ڈاکٹر "حسن روحانی" اور ایرانی وزیر خارجہ "محمد جواد ظریف" کیساتھ الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے حالیہ دورہ ایران کے موقع پر بھی ایرانی صدر مملکت، وزیر خارجہ، ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل باقری، ایرانی فوج کے سپہ سالار میجر جنرل "سید عبدالرحیم موسوی" اور قومی سلامتی کی اعلی کونسل کے سکریٹری جنرل "علی شمخانی" کیساتھ الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
پاکستان کے سابق وائس ائیر چیف مارشل "قیصر حسین" نے ارنا نمائندے کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی آرمی چیف کے حالیہ دورہ ایران کے نتایج سے اطمنیان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایک بہت ہی معقول شخص ہیں جنہوں نے خطے میں کشیدگی کے اختتام اور فرقہ واریت کیخلاف جنگ کو اپنی ترجیحات کے سر فہرست میں قرار دے دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی فوجی کمانڈر کے دورہ ایران سے دونوں ممالک کے اتحاد کو مزید تقویت ملے گی اور خاص طور پر عرب ممالک اور ان کے ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات کی راہ کو بھی ہموار کر سکتی ہے۔
پاکستانی تجزیہ کار برائے مشرق وسطی اور پاکستان کے سیکورٹی امور "کامران یوسف" نے بھی ارنا نمائندے کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی آرمی چیف کا دوسرا سرکاری دورہ ایران کو دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی اور سیکورٹی شعبوں میں اعلی سطحی وفدوں کے تبادلہ کے سلسلے کی کڑی قرار دے دیا۔
یوسف کا عقیدہ ہے کہ خطی صورتحال بشمول افغانستان اور داعش دہشتگرد گروپ جو ایران اور پاکستان کیلئے ایک مشترکہ خطرہ ہے، بلاشبہ دونوں ممالک کی مسلح افواج کے اعلی حکام کے درمیان مذاکرات کے اہم موضوعات رہے ہیں۔