دہشتگردی اور پاک ایران تعلقات
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
ہمارا پورا خطہ پچھلے چالیس سال سے جنگ کی لپٹ میں ہے۔ افغانستان میں روسی یلغار کو روکنے کے نام پر دنیا بھر سے آئے مجاہدین اور ان کی مقامی نرسریوں نے مقامی معاشرتی نظام کو تہہ بالا کر رکھا ہے۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات مثالی رہے ہیں، ہر مشکل وقت میں پاکستان نے ایران کا اور ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا، ایران کشمیر سمیت ہر ایشو پر پاکستان کے کندھے سے کندا ملا کر کھڑا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ پنسٹھ اور اکہتر کی جنگوں کے دوران پاکستانی جہاز ایران کی بیسز استعمال کرتے رہے۔ انقلاب اسلامی سے پہلے ایران کا جھکاو مغرب کی طرف تھا اور اسرائیلی نفوذ بھی بہت زیادہ ہوگیا تھا، انقلاب اسلامی نے اس اثر و نفوذ کا خاتمہ کر دیا اور ایران دوباہ اسلامی اتحاد کی طرف پلٹ آیا۔ اسلامی ممالک سے بہتر تعلقات اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون قرار پائے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے، جو نظریاتی طور پر پاکستان اور ایران کو بہت قریب کرنے کا باعث بنا اور مزید بنے گا۔
اب موجودہ کشیدگی کی طرف آتے ہیں، ایران میں یکے بعد دیگرے کئی حملے ہوئے، ان حملوں میں جہاں عام شہری شہید ہوئے، وہیں پر دسیوں فوجی اہلکار بھی شہید ہوگئے۔ ایران کو شکایت رہی کہ پاکستان میں کچھ ایسے گروہ موجود ہیں، جو وہاں سے ایران پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایرانی فوجیوں کے اغوا اور پاکستانی افواج کے تعاون و کوشش سے پنجگور سے ان کی رہائی نے اس بات کو تقویت دی۔ کچھ عرصہ پہلے ایران میں شہید ہونے والے پاسداران کے حوالے سے ایسے بیانات آئے، جس سے مسئلہ نے حساسیت اختیار کی۔ ہر دو طرف موجود پاکستان اور ایران کے خیر خواہ پریشان اور بدخواہ خوش ہوئے۔ فرقہ پرستوں نے جلتی پر تیل ڈالنے والا کام کیا۔ پاکستان میں نیوی کے جوانوں سمیت چودہ لوگوں کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ یہ ایک دلخراش واقعہ تھا، جس پر ہر پاکستانی کا دل دکھی تھا کہ گھر بار سے دور وطن کی حفاظت پر مامور جوان خاک و خون میں نہلا دیئے گئے۔
ایک توجہ طلب نقطہ یہ ہے کہ جب بھی ایران اور پاکستان میں کوئی اعلیٰ سطحی رابطہ ہونے جا رہا ہوتا ہے، اس وقت کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے، جو تعلقات کو بہتر بنانے کی بجائے صفائیاں دینے میں گذر جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایسی بہت سی طاقتیں موجود ہیں، جو دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان بڑھتے تعلقات کے خلاف سازشیں اور غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں۔ ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران کلبھوشن کی برآمدگی نے دو طرفہ تعلقات کی آگے بڑھنے کی رفتار کو کافی کم کر دیا تھا۔ اب اداروں کو چوکس رہنا چاہیے تھا کہ اب بھی کوئی وطن دشمن دونوں ممالک میں غلط فہمیاں پیدا نہ کرسکے۔
وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کے دورہ ایران سے پہلے جو پریس کانفرنس کی گئی کہ اس واقعہ میں ملوث دہشتگرد ایران سے آئے اور ایران واپس چلے گئے۔ بالفرض محال اگر اسے درست بھی مان لیا جائے، باوجود اس کے کہ بقول اختر مینگل صاحب وہ چار سو کلومیٹر کا فاصلہ اور پچاس پوسٹیں کراس کرکے کیسے آئے اور کیسے چلے گئے؟ تو بھی یہ معاملہ وزیراعظم اپنے دورے میں صدر ایران سے ڈسکس کر لیتے تو مسئلہ بھی حل ہو جاتا اور جو باہمی تناو پیدا ہوا، یہ بھی پیدا نہ ہوتا۔ دوسرا ہمارے محترم وزیراعظم صاحب نے بین الاقوامی میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ ہماری زمین ایران کے خلاف استعمال ہوئی، یہ بات بھی صدر روحانی اور ایرانی قیادت کو کان میں بتائی جاتی کہ پہلے کچھ گروہوں نے یہ غلیظ کام کیا اور اب ایسا نہ ہوگا، اس سے وطن عزیز کے مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ ہوتا اور ہر دو طرف کی آبرو بھی سلامت رہتی۔
دہشتگرد دونوں ممالک کے لئے مسئلہ ہیں، یہ نہ ایران اور نہ پاکستان بلکہ بین الاقوامی قوتوں کے ایجنٹ ہیں، جو کبھی ایران اور کبھی پاکستان میں قتل عام کرتے ہیں اور اس طرح کا ماحول بنا دیتے ہیں، جس سے ملکوں کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کو بہتر کیا جائے ،انڈیا تو ہمارا علی الاعلان دشمن ہے اور یہ بات پوشیدہ نہیں ہے، افغانستان جہاں ہماری مرضی کی حکومت ہوتی تھی، وہاں آج کل پاکستانی شناخت کا اظہار مشکل ہوچکا ہے۔ چین کے ساتھ ابھی تک ہمارے اچھے تعلقات ہیں، اللہ انہیں قائم رکھے۔ رہ گیا ایران تو اہلِ وطن کی خواہش ہے کہ ہمارے تعلقات بہتر ہوں، جس تیز رفتاری سے یہ تعلقات بگاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے، کہیں ایسا ہو کہ جس طرح ہم آج کابل میں پاکستانی شناخت کا اظہار نہیں کرسکتے، کل تہران میں بھی خدا نخواستہ یہی صورتحال پیدا ہو جائے۔ اس لئے ہمیں پھونک پھونک کر قدم اٹھانے ہوں گے۔
بین الاقوامی میڈیا بالخصوص بی بی سی نے ایران پاکستان بارڈر کی صورتحال کو بہت زیادہ اچھالا، اگر عمران خان کے دورہ سے ایک دو ماہ پہلے کی رپورٹیں پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے پوری حکمت عملی کے ساتھ بہت سے جھوٹ کو تھوڑے سے سچ میں ملا کر سب سچ کہہ کر بتایا جا رہا ہے۔ بارڈر پر ایک ٹیوبیل کی فوٹو تک دکھائی جا رہی ہے کہ اسے ایرانی فائرنگ سے نقصان پہنچا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بین الاقوامی قوتیں ذرائع ابلاغ کو کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ہمارے اداروں کو بھی اس جانب توجہ کرنی چاہیئے کہ منظور پشتین جیسے گمنام کو وائس امریکہ نے ایک لیڈر بنا دیا، ایسے لگتا ہے کہ امریکہ جو مفاد لینا چاہتا ہے، اس کی حمایت میں میڈیا کو ہراول دستے کے طور پر آگے کر دیتا ہے۔
یہاں امریکی کردار کو قطعاً نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، امریکہ ہر صورت میں یہ چاہتا ہے کہ ایران کا گھراو کرے، ایران اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی ادارے ہر طرح سے کوشش کریں گے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان موجود برادرانہ تعلقات کو خراب کیا جائے۔ اس حوالے سے مقامی سطح پر انہیں فرقہ پرستوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ داعش اور دیگر گروہوں کو عراق اور شام میں عبرناک شکست ہوچکی ہے، اس کے لیے جو ورک فورس تربیت کی گئی تھی، اس کو کسی بھی وقت نئی اسائنمنٹ دی جا سکتی ہے بلکہ سابق افغان صدر جناب حامد کرزئی کے مطابق بڑی تعداد میں داعشی جنگجووں کو افغانستان منتقل کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے ان قاتلوں کو ہمارے بارڈرز ایریاز میں چھوڑا جا سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ برادرانہ تعلقات کو مزید بہتر بنایا جائے۔