ارنا – ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح سے مغرب نواز کی جابر حکومت کے خاتمے کو 40 سال بیت گئے جبکہ داخلی اور بیرونی دشمنوں کا خیال تھا کہ انقلاب اور نئے نظام کی عمر کافی کم ہوگی مگر یہ انقلاب مضبوط اور ناقابل تسخیر ہوکر دنیا کے لئے مثال بن گیا۔
ایران کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا خیال تھا کہ انقلاب میں اتنی جان نہیں کو وہ زیادہ عرصے تک چلے لہذا ایک اور شہنشاہ ایران پر حاوی گا۔ مگر آج 40 سال گزرنے کے بعد بھی اسلامی انقلاب ایک ایسا مضبوط درخت ہے جو 40 سال سے آئے بادلوں اور طوفانوں کے سامنے جھکا نہیں بلکہ اس کی چھاؤں نے ایرانی قوم کو امن و خوشحالی کا تحفہ دیا۔
1979 میں یہی ایام تھے جب ایرانی عوام انقلابی تحریکوں میں جوش و خروش سے شریک تھے اور جابر شہنشاہ محمد رضا پہلوی کے خلاف مختلف شہروں اور علاقوں میں گلی کوچے اور سڑکوں پر احتجاج کررہے تھے۔ ان مظاہروں کو دیکھ کر جابر شہنشاہ 16 جنوری 1979 ایران سے فرار ہونے پر مجبور ہوگیا اور وہ کبھی لوٹ نہ آیا۔ شاہ کے فرار کے بعد بانی عظیم اسلامی انقلاب حضرت امام خمینی (رح) کی وطن واپسی کے لئے سب کچھ تیار ہوگیا جن کی مدد سے ایران میں اسلامی جمہوریہ نظام کی تشکیل نو ہونی تھی۔
یکم فروری 1979 آیت اللہ خمینی اسلامی انقلاب کے بانی کی حیثیت سے چودہ سال ملک بدری اور عراق اور فرانس میں رہنے کے بعد وطن واپس آ گئے اور ٹھیک دس دن کے بعد یعنی 11 فروری کو اسلامی انقلاب کی باضابطہ کامیاب کا اعلان ہوگیا اور یوں ایران میں اسلامی جمہوریہ کی حکومت کے قیام کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔
انقلاب کے بعد ایران مشرق وسطی اور عالم اسلام کے سب سے اہم ملک بن گیا اور جبکہ اسلامی انقلاب امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے مفادات کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکا تھا۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کے لئے ایران میں انقلاب مخالف گروہوں کی حمایت کرتے ہوئے انقلاب سے منسلک اعلی شخصیات پر قاتلانہ حملے کروائے، ملک دشمنوں عناصر نے اس دوران دہشتگردی کی متعدد کاروائیاں کیں، اس کے علاوہ عراق کی حکمران جماعت "بعث" پارٹی بالخصوص صدام کو ایران پر حملے کے لئے مشتعل کرکے اس کی بھرپور حمایت بھ کی گئی۔
دشمنوں کا خیال تھا کہ اسلامی انقلاب کمزور ہوگیا ہے جس کے بعد صدام حسین کی جارحیت سے اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے گا تاہم آٹھ سالہ مسلط جنگ کے دوران ایرانی قوم اپنی سرزمین کے ایک انچ سے پیچھے نہیں ہٹی جس کے بعد اقوام متحدہ کی قرارداد 598 کے ذریعے اس جنگ کا خاتمہ کردیا گیا۔
امریکہ اور اس کے اہم اتحادی ممالک بالخصوص ناجائز صہیونی ریاست نے اسلامی جمہوریہ ایران کو غیرمستحکم کرنے کے لئے معاشی اور نفسایتی جنگ کا آغاز کرتے ہوئے اسی سلسلے میں ایران کے سائنسی، تعلیمی اور سیاسی شخصیات کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا۔
اس کے علاوہ امریکہ نے اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کے لئے ظالمانہ پابندیوں کو سہارا لیا اور آج بھی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے 40 سال گزرنے کے باوجود بھی امریکہ نے ایران کے خلاف سازشوں کے سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔
ایران کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی کوششوں کے باوجود آج اسلامی انقلاب ایرانی عوام کی حمایت اور سپریم لیڈر کی حکیمانہ قیادت کی بدولت ایک تناور درخت بن چکا ہے جس پر طاقت حاوی نہیں ہوسکتی ہے۔