شیخ صدوق (رح) کی عظمت بیانی اور احترام کا دن
زندہ و جاوید انقلاب کے ایک عظیم محافظ اور مکتب اہلبیت (ع) کے سچے خادم اور عالم اسلام ممتاز اور مایہ ناز دانشور شیخ صدوق (رح) ہیں جنہوں نے اپنی پوری عمر شیعہ فقہ اور حدیث نیز مہدویت ثقافت کی پاسبانی اور حفاظت میں صرف کردی ہے۔
آپ کا نام نامی ابوجعفر محمد بن علی بن بابویہ قمی ملقب بہ "شیخ صدوق" ہے۔ آپ صف اول کے محدثین اور شیعہ اثنی عشری علماء کے پہلے گروہ میں مقام رکھتے ہیں اور فقہ شیعہ کے ایک رکن شمار کئے جاتے ہیں۔ اس محدث کی وفات کو 1/ہزار صدیاں گذرنے کے بعد ان کے آثار اور خدمات باعث ہوئے کہ 5/ مئی کو "شیخ صدوق" کے تجلیل مقام کے عنوان سے نام دیا جائے۔
اس عالم ربانی اور فاضل صمدانی کی جلالت شان اور مقام و منزلت اس درجہ ہے کہ امام حسن عسکری (ع) ایک خط میں انہیں "شیخ"، "فقیہ" اور "معتمد" کے لقب سے یاد کرتے ہیں، اور آپ نے ان کے لئے رضائے خدا حاصل کرنے کی توفیق کی درخواست کی ہے۔ شیخ صدوق نے اپنا عہد طفولیت اور اپنی جوانی، علم و تقوی اور فضیلت و کمال میں گذاری ہے۔ آپ کے گھر کا ماحول علم و تقوی کا تھا۔ آپ اپنے والد کی تعلیم و تربیت میں رہے ہیں۔اس درجہ ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے کہ بہت کم دنوں میں انسانی کمالات کی بلند چوٹیوں پر پہونچ گئے اور 20/ سال سے کم عمر میں ہزاروں حدیثوں کو ان کے سلسلہ سند کے ساتھ حفظ کرلیا اور ان سب سے اہم یہ کہ ان پر عمل کیا۔
شیخ صدوق کی زندگی کا اہم واقعہ ایرانی نسل اور شیعہ مذہب "آل بویہ" کا حکومت سنبھالنا اور ایران، عراق، جزیرة العرب ، شام کے شمالی باڈر تک حکم چلانا اور فرمانروائی کرنا ہے۔ آپ اس وقت قم سے ری آگئے اور "رکن الدولہ دیلمی" کی درخواست پر وہاں مقیم ہوگئے۔ میری نظر میں اس سفر اور قیام کی اصلی علت وہ خلا تھا جو "شیخ کلینی (رح)" کے ری سے بغداد ہجرت کرجانے کے بعد اور ان کی رحلت کے بعد پیدا ہوا تھا۔ درحقیقت ری میں شیخ صدوق کا وجود بے شمار برکتوں کا باعث ہوا۔
شیخ صدوق کے عصر کو حدیث کی جان پڑتال اور تحقیق کا دور کہنا چاہیئے کیونکہ رسولخدا (ص) کے بعد حدیث سازی اور جعل کا بازار گرم ہوگیا تھا اور خلفاء کے حدیث سازی اور جعل کے کارخانے بورئے کا آگئے تھے اور ایسے ماہر لوگ پیدا ہوگئے تھے کہ حدیثیں جعل کرکے رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کی طرف نسبت دیدیتے تھے۔
شیخ صدوق 70/ اور کچھ سال پر افتخار اور بابرکت زندگی گذار کر، 300/ جلد کتاب تصنیف کرکے آخر کار سن 381ھ ق کو شہر ری میں اپنے معبود سے جاملے۔ آپ کا مزار اس وقت ری میں "ابن بابویہ" کے نام سے مشہور اور شیعوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
خداوند عالم ہمارے تمام علمائے اعلام اور بزرگوں پر رحمت نازل کرے اور اپنی توجہات کے سایہ میں قرار دے۔ آمین۔