مجاہدین خلق ادارہ کے اراکین ابتدا ہی سے امام کی تائید اور حمایت کے خواہاں تھے لیکن آپ نے اس ادارہ کی مقبولیت کے دور میں بھی اور جب علی الظاہر امام کے مشن پر چل رہے تھے اور اس کے اراکین خود کو امام کا مقلد بتاتے تھے پھر بھی امام نے ان کی تائید سے اجتناب کیا۔ امام کے چاہنے والے اور انقلابی کچھ علماء نے امام کو خط لکھا اور ان لوگوں کی تائید کی درخواست کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
نقل کیا گیا ہے کہ آقائے دعائی نے مجاہدین خلق کے ایک رکن کو امام کے پاس بھی لے کر گئے تا کہ وہ اس ادارہ کے دیگر اراکین اپنا خیال ظاہر کرکے امام کو تائید کے لئے راضی کرلیں لیکن پھر بھی امام نے قبول نہیں کیا۔ خود امام نے انقلاب کے بعد اپنی کسی ایک تقریر میں اس ملاقات کا ذکر فرمایا کہ کچھ لوگ میرے پاس آئے اور قرآن و نہج البلاغہ کے جملے اس قدر پڑھے کہ مجھے شک ہونے لگا کہ یہ لوگ اس درجہ ایمان اور قرآن و نہج البلاغہ سے اپنے لگاؤ کا اظہار کیوں کر رہے ہیں؟ درحقیقت امام مسلحانہ مقابلہ کے قائل نہیں تھے لہذا آپ ان لوگوں کے کام کی بھی تائید نہیں کرسکتے تھے۔
مزید وضاحت کے لئے عرض کروں کہ مجاہدین خلق ادارہ ایک اسلام طلب گروہ کے عنوان سے اپنے اراکین کو امام کا مقلد جانتے تھے اس لئے قتل اور مڈر جیسے خطر ناک کاموں کے لئے اپنے اراکین کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے کسی مرجع کا جواز چاہتے تھے۔ جبکہ یہ لوگ مسئلہ کی طرف بے توجہی کے ساتھ من مانی کررہے تھے۔ یقینا یہ کام امام کی تائید سے نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ امام مسلحانہ تحریک کو حکومت کے مفاد میں جانتے تھے۔ کیونکہ اس قسم کا کام بہت جلد حکومت کی نظر میں آجانا اور حکومت سختی کرتی اور حکومت کو معاشرہ میں خوف و ہراس پیدا کرنے کا موقع مل جاتا پھر اس طرح سے اصولی اور انقلابی تحریک آگے نہیں بڑھتی۔
اسی وجہ سے امام (رح) نے ابتدا ہی سے اس طرح کی کسی طرح کی حمایت نہیں کی۔ آپ حسن علی منصور کے مڈر کے بھی مخالف تھے۔ اس سلسلہ میں آقا انواری جو موتلفہ اسلامی جماعت سے رابطہ میں تھے نقل کرتے ہیں کہ میں امام کی خدمت میں پہونچا تا کہ منصور کے مڈر کرنے کی اجازت لے لوں لیکن آپ نے اجازت نہیں دی اور جب میں ان لوگوں کے پاس آکر اس بات کی اطلاع دی کہ امام نے حسن علی منصور کے مڈر کرنے کی اجازت نہیں دی ہے تو اس وقت حسن علی کا مڈر ہوچکا تھا اور اب کچھ ہونے والا نہیں تھا اور اس مڈر میں موثر اراکین گرفتار ہوچکے تھے اور مجھے بھی گرفتار کرلیا جبکہ میں ان لوگوں کو اس مڈر کے ارادہ سے منصرف کرنے کے لئے آیا تھا۔
امام خمینی (رح) کے نزدیک حکومت کے فاسد سربراہ کے مڈر کی موافقت نہ کرنے کی وجہ مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ یہ تھی کہ آپ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ مارا دیا جائے گا تو اس کی جگہ پر جو آئے کا اس سے بدتر ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوا کہ منصور کے بعد بدترین افراد مسند حکومت پر آیا اور 17/ خرداد سن 54 و غیرہ کے دردناک حوادث رونما ہوئے۔ امام خمینی (رح) حکومت سے مقابلہ کرنے کی بہترین روش عوام کی عمومی تحریک کو جانتے تھے جس طرح اللہ کے نبیوں اور اس کے اولیاء نے کوشش کی ہے کہ لوگوں کو بیدار کرکے ان کے ہمراہ وقت کے ظالم اور طاغوت سے مقابلہ کرنے کے لئے نکلیں۔