عورت

قرآن میں عورتوں کے انسانی حقوق

مرد اور عورت ایک حقیقت سے پیدا ہوئے ہیں اور انسانیت و آدمیت کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔

خداوند رحیم و کریم نے تمام بنی نوع انسان کو ذاتی کرامت سے نوازا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: "اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں گروہوں، خاندانوں اور قبیلوں میں قرار دیا ہے تا کہ ایک دوسرے کو پہچانو(پہچان کر ایک دوسرے سے معاملہ کرو) یقینا خدا کے نزدیک سب سے زیادہ با کرامت اور با عزت صاحب تقوی ہے۔"

مرد اور عورت دونوں ہی ایک حقیقت سے پیدا ہوئے ہیں اور انسانوں کا دیگر موجودات سے امتیاز اس حقیقت میں ہے جس کا انسانی جسم اور پیکر سے کوئی خاص ربط نہیں ہے اور وہ انسان کی وہی روح اور اس کا ضمیر ہے جس حقیقت میں تمام انسان مشترک اور برابر ہیں۔

مرد اور عورت ایک حقیقت سے پیدا ہوئے ہیں اور انسانیت و آدمیت کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔ نتیجتا انسانی حقوق کے لحاظ سے بھی یکساں اور برابر ہیں۔ موضوع کی مزید وضاحت کے لئے حق حیات، حق تعلیم، حق ازدواج(شادی بیاہ)، اقتصادی استقلال، حق امنیت، اجتماعی زندگی، سیاسی شرکت اور اقتدار کے حصول کا حق اور معنوی زندگی جیسے انسانی حقوق کا قرآن میں ذکر ہوا ہے، اسی طرح اس بحث میں جنسیت کا موضوع مورد بحث قرار پایا ہے۔

تمام انسان جنسیت سے قطع نظر زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں اور اپنی بقا کو باقی رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی آسمانی کتاب میں تصریح ہوئی ہے کہ مرد اور عورت ایک حقیقت سے پیدا ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دوسرے پر کوئی فضیلت اور برتری نہیں رکھتا۔ "اے لوگو! اپنے رب کا تقوی اختیار کرو کہ اس نے تم کو ایک حقیقت سے پیدا کیا ہے اور اسی حقیقت سے اس کا جوڑا پیدا کیا ہے۔"

سیکھنا، تعلیم حاصل کرنا، احسانوں کے متفقہ حقوق ہیں۔ خداوند عالم بھی انسانوں کی ممتاز ترین خصوصیت اسی میں جانتا ہے کہ وہ اسماء (حقائق عالم) کی تعلیم حاصل کرسکتا ہے اور دوسروں کو تعلیم دے سکتا ہے۔ رسولخدا (ص) فرماتے ہیں:

علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اس امر میں عورتوں کی محرومیت کو برطرف کرنے کے لئے مرد اور عورت دونوں کو تاکید فرماتے ہیں کہ تعلیم دینے کو عورتوں کا مہر قرار دیں تا کہ عورتوں کی جہالت دور ہو۔ اس حق میں مرد اور عورت میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں ہے۔ اس میں نہ شوہر بیوی کو اور نہ باپ اپنی بیٹی کو اس حق سے محروم نہیں کرسکتا۔ اس اعتبار سے علماء اور دانشوروں کا گروہ قرآن کی نظر میں خاص مقام رکھتا ہے اور دیگر انسانوں سے ان کا کوئی موازنہ اور مقابلہ نہیں ہے۔

مرد اور عورت دونوں ہی اپنے کام کے نتیجہ سے استفادہ کرنے کا حق رکھتے هیں کوئی بھی اس حق کو دوسرے سے سلب نہیں کرسکتا ہے مرد کے لئے بھی ان کی کمائی کا حصہ ہے اور عورت کے لئے بھی ان کی کمائی کا حصہ ہے۔

اسی طرح قرآن کریم نے مرد اور عورت کی شادی بیاہ کو سکون اور اطمینان کا مقصد قرار دیا ہے۔ اسلام میں مرد اور عورت اپنا شریک حیات انتخاب کرنے کا حق رکھتے ہیں اور طرفین میں سے کسی ایک کو زبردستی اور جبرا شادی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور اگر ایسا کیا جائے تو عقد باطل ہے، عروت اور مرد زندگی کو آگے بڑھانے میں راضی ہوں اور کسی کو ظلم و زیادتی قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک خداوند عالم اپنے پیغمبروں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ایسا کام کریں کہ ان کی ازواج راضی ہوں اور غمزدہ نہ ہوں۔ دونوں ہی اپنی مشترکہ زندگی کے حقوق سے فیضیاب ہوں۔ اور انھیں اس درجہ اذیت نہ کریں کہ جبرا اپنے ناجائز حق سے صرف نظر کریں۔

اجتماعی زندگی میں بھی روحی اور ذہنی اعتبار سے سکون محسوس کریں کوئی کسی کی سماجی آزادی کو سلب کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ لہذا تمام مشترکہ حقوق میں کوئی کسی پر فضیلت نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی کو اس کے جائز اور خداداد حق سے محروم کرسکتا۔

ای میل کریں