ماہ صفر قمری سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ دور جاہلیت میں اسے ناجز کہا جاتا تھا۔ اس ماہ کا صفر نام رکھنے کے بارے میں دو وجہ ذکر کی گئی ہے:
پہلی دلیل یہ کہ "صفرہ"زردی" سے ماخوذ ہے؛ کیونکہ اس نام کے انتخاب کے وقت خزاں اور درختوں کے پتوں کے زرد ہونے کارخانہ تھا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ "صِفر" خالی" سے ماخوذ ہے؛ کیونکہ محرم تمام ہوجانے کے بعد لوگ جنگ کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل جاتے تھے اور شہر خالی ہوجاتا تھا۔ اس ماہ کی پہلی تاریخ کو جنگ صفین کا آغاز ہوا ہے۔ جنگ صفین کی داستان کافی طویل ہے۔ اس جنگ میں حضرت علی (ع) اور معاویہ کےلشکر سے کافی لوگ مارے گئے۔ اس جنگ میں حضرت علی (ع) کے لشکر سے عمار یاسر، ہاشم مرقال، خزیمہ بن ثابت، حذیفہ کے بیٹے صفوان، اور سعد، اشتر نخعی کے بھائی عبداللہ بن حارث شہید ہوئے۔
اسی جنگ میں "لیلة الهریر" واقع ہوئی تھی اور اس رات اس درجہ جنگ مغلوبہ ہوتی کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان نہیں رہے تھے اور جنگی اسلحے تمام ہوگئے اور آخر کار لشکر ایک دوسرے کو لات اور گھونسے سے مار رہا تھا۔ اس دن مالک اشتر نے ایسی نمایاں جنگ کی کہ امیرالمومنین (ع) کے لشکر کی فتح قریب تھی کہ اہل شام کے سرداروں نے فریاد بلند کی کہ تمہیں خدا کا واسطہ عورتوں اور لڑکیوں پر رحم کرو کہ سارے بیوہ اور یتیم ہوجائیں گے۔
معاویه نے عمرو عاص سے کہا کہ تمہارے پاس جو بھی مکر و حیلہ ہے اسے استعمال کرو ورنہ ہم سب ہلاک ہوجائیں گے اور اسے مصر کی حکومت دینے کا وعدہ کیا۔ عمر و عاص ایک مکار اور دھوکہ باز انسان تھا اس نے اپنے لشکر کو آواز دی کہ اے لوگو! جس کے پاس بھی قرآن ہو اسے نوک نیزہ پر بلند کردے۔ اس آواز کے بعد 500/ قرآن نوک نیزہ پر بلند کردیا گیا اور معاویہ کے لشکر سے آواز بلند ہوگئی کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب خدا حاکم ہو۔ حضرت علی (ع) کا لشکر اس مکر و حیلہ سے دھوکہ کھاگیا اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے لگا اور حضرت سے کہا: اے علی! معاویہ سچ کہہ رہا ہے اس نے آپ کو کتاب خدا کی دعوت دی ہے اس بات کو مان لیجئے۔ اس کام میں اشعث بن قیس سب سے زیادہ سخت تھا۔
امیرالمومنین (ع) نے فرمایا: یہ دھوکہ اور فریب ہے۔ ان لوگوں نے کہا یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمیں قرآن کی طرف بلایا جائے اور ہم لبیک نہ کہیں۔ حضرت نے فرمایا: تم پروای ہو! ہم ان سے جنگ ہی اس لئے کررہے ہیں کہ یہ حکم قرآن کے پابند ہوں لیکن ان لوگوں نے نافرمانی اور کتاب خدا کو پیش کردیا۔ جاؤ اپنے دشمنوں سے جنگ کرو اور ان کے دھوکہ میں نہ آؤ۔ یقینا معاویہ، عمروعاص، ابن معیط، حبیب بن سلمہ اور بنی نابغہ دین اور قرآن کے ماننے والے نہیں ہیں اور ہم انہیں تم سے بہتر طریقہ سے پہچانتے ہیں۔
اس طرح کے جملے بہت سننے میں آئے ہیں۔ امیرالمومنین (ع) نے ان بدبختوں کو جتنی نصیحت کی لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر کا اشعث اور اس کے ساتھیوں نے حضرت کو دھمکی دی کہ ہم لوگ تمہارے ساتھ بھی وہی کریں گے جو عثمان کے ساتھ کیا تھا۔ اور بولے کہ کسی کو اشتر کے پاس بھیج کر انہیں جنگ سے منع کریں۔ حضرت نے اشتر کے پاس قاصد بھیجا کہ جنگ روک دو۔ مالک اشتر نے کہا یہ جنگ بند کرنے کا موقع نہیں ہے فتح و نصرت قریب ہے۔ جب قاصد نے آکر یہ پیغام دیا تو بدبخت جماعت نے وہی بات دہرائی کہ ہم آپ کے ساتھ عثمان کی طرح کرڈالیں گے۔ آخر کار دوبارہ قاصد گیا اور کہا کہ مولا کہہ رہے ہیں کہ اگر جنگ بند نہیں کروگے تو یا مجھے مقتول دیکھو گے یا دشمن کے ہاتھ میں گرفتار۔
خلاصہ جنگ بندی ہوگئی اور مکار فوج قتل ہونے سے بچ گئی۔ اور یہ موقع اسلام اور انسانیت کو بہت بڑا نقصان ہوا۔ واقعہ صفین کے اس انسانیت سوز مسئلہ سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان کی فکر صحیح ہو ورنہ حق کے ساتھ ہونے کے باوجود بھی باطل کو فائدہ پہونچادے گا۔ حق کو شکست ہوگی اور باطل کامیابی کا جشن منائے گا۔ عقل و شعور کا استعمال کرے اور غور و فکر کا صحیح معیار بنائے۔ حق و باطل کا حقیقی پیمانہ ہو ورنہ صفین کے طرفداران علی (ع) کی طرح شکست کھانے پر مجبور ہوگا؛ کیونکہ ان لوگوں نے حق و صحیح طریقہ سے پہچانا نہیں تھا لہذا صاحبان حق کی شناخت میں گمراہی کا شکار ہوگئے۔ قرآن کے نیزوں پر بلند ہونے سے قرآن بلند کرنے والوں کے دھوگے میں آگئے لہذا پہلے صحیح معیاروں اور عقل کی کسوٹی پر حق کو سمجھ کر پھر فیصلہ کرے۔