اس دن سن 3 ھ ق کو غزوہ احد ہوئی ہے اور یہ غزوہ بدر کے بعد تھی اور دونوں ہی ایک ہی سال میں رونما ہوئی تھی۔ اس غزوہ میں ابوسفیان اور دیگر مشرکین اپنی عورتوں کو بھی ساتھ لیکر آئے تھے لہذا پہلی ہی حملہ میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ کیونکہ جب حضرت علی (ع) نے طلحہ بن طلحہ کو واصل جہنم کیا تو سارے کفار بھاگ گئے کیونکہ طلحہ بن طلحہ لشکر کفار کا علمبردار اور سردار تھا اور مسلمین غنیمت لینے کے لئے جمع ہوگئے۔
پھر خالد بن ولید کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ جو کمین میں تھے باہر آگیا اور پیغمبر (ص) کو چاروں طرف سے نیزہ اور تلوار لے کر گھیر لیا اور آپ کی پیشانی توڑی اور آپ کے 70/ اصحاب کو مار ڈالا۔ ابن قمیئہ نے چلا کر کہا کہ میں نے محمد (ص) کو قتل کردیا ہے، رسولخدا (ص) کے علی (ع) کے سوا سارے اصحاب فرار کرگئے۔ رسولخدا (ص) بے ہوش ہوگئے اور امیرالمومنین (ع) کفار کو آنحضرت (ص) کے اطراف سے بھگارہے تھے۔ اس جنگ میں حضرت علی (ع) کے جسم نازنین پر 90/ زخم لگے تھے۔ اس دن آپ کے قربانی پر ملائکہ حیرت کررہے تھے اور زمین و آسمان کے درمیان آواز بلند ہوگئی: "لا فتی الا علی۔۔۔لاسیف الا ذوالفقار"
پھر عاصم بن ثابت، ابو دجانہ اور سھل بن خیف جیسے بعض اصحاب ملحق ہوئے۔ اس دن اپنے زمانہ کے سیدالشہداء اسداللہ حضرت حمزہ ایک وحشی کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یہ وحشی وہی ہے جو اس واقعہ کے بعد رسولخدا (ص) کے خوف سے سختی میں زندگی گذار رہاتھا اور آخر کار خود کو پوشیدہ طریقہ سے آپ (ص) کی خدمت میں پہونچایا اور اچانک آپ کے سر پر کھڑا ہوگیا اور کلمہ شہادت ادا کیا ۔
وہ وحشی رسولخدا (ص) سے چھپ کر زندگی گذاررہا تھا تا کہ اس پر رسولخدا (ص) کی نظر نہ پڑے اور حضرت حمزہ کی شہادت یاد نہ کریں۔ ابوبکر کے ایام خلافت تک مسیلمہ کذاب سے کرنے گیا اور اسے قتل کر ڈالا۔ مسلمان اس ملعون کے قتل سے خوشحال ہوئے جس طرح حضرت حمزہ کی شہادت سے غمزدہ ہوئے تھے اور وحشی یہی کہہ رہا تھا کہ میں نے بہترین خلق کو قتل کیا اور بدترین خلق بھی میرے ہاتھوں سے تباہ ہوا ہے۔
خلاصہ حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد معاویہ کی ماں ھند جو حمزہ سے بغض و عداوت رکھتی تھی؛ نے حمزہ کا جگر منگایا اور منہ میں رکھ لیا۔ اس کے منہ میں خدا کی قدرت سے بخت بن گیا اور آخر کار منہ سے باہر نکال دیا۔ اسی وجہ سے اسے "آکلة الاکباد" کہتے ہیں۔ پھر وہ ملعونہ حضرت حمزہ کے سرہانے آئی اور اس نے آپ کے کان، ناک اور اعضاء کو کاٹ لیا۔
حمزہ کی شہادت سے رسولخدا (ص) بہت زیادہ متاثر ہوئے اور جب میدان جنگ سے مدینہ تشریف لارہے تو اس وقت مدینہ کے جز حمزہ کے گھر کے ہر گھر سے اپنے عزیزوں کی شہادت کی وجہ سے رونے کی آواز بلند تھی۔ اسی لئے رسولخدا (ص) کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے اور فرمایا: لیکن آج حمزہ کا کوئی رونے والا نہیں ہے۔
بعض علماء کے بقول حضرت علی (ع) کے لئے آج ہی کے دن "ردّ الشمس" ہواہے۔ اصحاب کے نزدیک اور کثیر اخبار کا مقتضی یہ ہے کہ حضرت علی (ع) کے لئے دو دفعہ آفتاب پلٹا ہے۔ ایک بار رسولخدا (ص) کی حیات طیبہ میں مسجد قبا کے قریب جسے اس وقت مسجد ردالشمس اور مسجد فضیح کہتے ہیں۔ اور دوسری بار رسولخدا (ص) کی رحلت کے بعد بابل کی سرزمین پر۔