سال کی ممتاز ترین ایک رات ماہ شوال المکرم کی پہلی رات ہے۔ جسے شب عید فطر کہتی هیں۔ لہذا اس کے خاص احکام ہیں اور اس رات عبادت اور احیاء اور شب بیداری مستحب موکد ہے۔
روایت کی گئی ہے کہ حضرت علی (ع) تین راتوں کو سوتے نہیں تھے: ۲۳/ ویں ماہ رمضان، شب عید فطر اور شب نیمہ شعبان۔ رسولخدا(ص) سے منقول ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: جو شخص شب عید فطر ( یا شب قدر میں) شب بیداری کرے اس کا دل اس دن زندہ رہے گا جس دن سارے دل مردہ ہوجائیں گے۔
روایت کی گئی ہے کہ امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: حضرت امام زین العابدین (ع) شب عید فطر کو صبح کی نماز تک بیدار رہتے تھے اور مسجد میں شب بیداری کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میری بیٹے وہ رات شب قدر سے کم نہیں ہے۔
ہاں اس شب کے خصوصیات انعام لینے کے لئے آمادہ ہونا ہے ۔ وہ انعام جو کل دیا جائے گا۔ چنانچہ رسولخدا (ص) سے روایت ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: جب شوال کا پہلا دن آتا ہے تو منادی ندا دیتا ہے کہ اے مومنو! اپنے انعامات کی جانب دوڑو اور لینے میں سبقت کرو۔ اس وقت فرمایا: اے جابر! پروردگار کا انعام دنیاوی بادشاہوں کی طرح نہیں ہوتا پھر فرمایا: وہ انعامات کا دن ہے ۔
اسی وجہ سے انسان اس رات توبہ و استغفار، نماز و دعا اور مناجات میں گذارے اور شکو تردید میں رہے کہ میرا روزہ خدا کی بارگاہ میں مقبول ہوا کہ نہیں؟ کیا میں ان ایام میں خدا کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہوں؟ کیا مجھ سے کوئی ایسا عمل سر زد ہوا ہے جو ظاہر و باطن کے عالم خدا کی رحمت سے دوری کا باعث ہو؟ کیا میں اپنے غلط کاموں اور خدا کی نافرمانیوں سے نادم اور شرمندہ ہوا ہوں؟ کیا خدا نے ہماری ندامت اور پشیمانی کو قبول کیا ہے؟ میرا دل شیطانی آلودگیوں سے پاک ہوا اور اس ماہ میں دل کا تزکیہ اور تطهیر ہوئی اور اس ماہ کی برکتوں سے اس میں جلد اور نورانیت آئی؟ اس عظیم ماہ کی برکت سے نفس پاکیزہ ہوا اور اس میں انقلاب آیا؟ کیا واقعا ہماری فکر فرق کر گئی ہے اور خدائی بن گئی ہے؟ یا نهیں! میں رمضان سے پہلے هی والا انسان ہو بلکہ اس سے بھی بدتر؟
اس طرح کی رات میں توجہ کرے کہ حالات بدل چکے ہیں، حوادث اور واقعات ایک دوسری طرح تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب رسولخدا (ص) اور آپ کے اہلبیت (ع) کے فرمودات کی روشنی میں شیطان اب تک زنجیر و بیڑی میں تھا اور اس شب کی سب سے پہلی ساعت میں اس کی آزادی کا دستور صادر ہوتا۔ لہذا خود کو ان کے خلاف مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کرنا چاہیئے اور جان لے کہ اس سے جنگ کرنا کس درجہ مشکل کام ہے۔ جہاں دیدہ اور تجربہ کار دشمن، جس کا مقابلہ دائمی، اس کے مقابلہ کے میدان بہت وسیع، اس نے انبیاء، اوصیاء اور عظیم انسانوں سے مقابلہ کیا ہے، اس نے جنگ کے سارے حیلوں کا استعمال کیا ہے، اس سے پیکار کرنے میں ڈٹا ہے۔
خلاصہ نت نئے اور مختلف اسلحوں سے لیس دشمن ہے یہاں تک وہ انسان کو دین اور عبادت کی راہ سے بھی گمراہ کرتا ہے، لہذا بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں جانے اور زیادہ سے زیادہ خدا سے مدد مانگے، اس سے مدد بھی مانگے اور اپنے امور اس کے حوالہ کردے۔ اس طرح کی رات کو جس طرح جسم کا غسل اور طہارت کرتا ہے اسی طرح اپنے دل کو بھی توبہ و استغفار کے پانی سے دھوکر پاک و صاف کرے۔
اس رات خدا کی حمد و ثنا کرے کہ اس نے ایک ماہ تک اپنی مہمانی میں بلایا اور اس مدت میں اپنے لطف و احسان سے نوازتا رہا، اس کی اہمیت اور ارزش کا قائل ہوا، اس کو اپنے مہمان خانہ میں آنے کی اجازت دی اور خود سے بات کرنے اور انس پیدا کرنے کی اسے آزادی دی۔