جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں گھرانہ اور خانوادہ دیندار ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ گھرانہ انصاف پسند، متقی اور پرہیزگار نیز نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے دور ہے۔ اگر والدین فردی اور خانوادگی رفتار میں تقوی کے لازمی معنی کے حامل ہوں اور اس کا صحیح مفہوم رکھتے ہوں تو اس طرح کا گھرانہ بہت سارے خرافات اور ناروا اعمال کے ارتکاب سے دور ہوگا۔
جس گھرانے میں بلند و بالا عقائد و نظریات اور اعلی اقدار، ادب، مہربانی، محبت حاکم ہو تو فطری ہے کہ اس طرح کا گارانا ایک صحیح و سالم گھرانہ سے معروف ہوگا۔ بنابر یں ایک گھرانے کے لئے کسی نشہ کا عادی ہونا یا غلط روابط جیسے مسائل پیدا ہوں جو خانوادہ میں فسادات کا باعث ہوں۔ لیکن اگر اس گھرانی میں دین و دیانت، تقوی اور پرہیزگاری، انسانیت اور شرافت حاکم ہوگی تو اس طرح کی مشکلات پیدا نہیں ہوں گی جو خانوادہ کو بکھیر سکیں اب یہ مشکلات مرد کی وجہ سے ہوں یا عورت کی وجہ سے۔ یہ سارے نقصانات، بد اخلاقی اور غلط روابط کا نتیجہ ہیں جو انسانوں کے درمیان حاکم ہوجاتے ہیں۔
لیکن اگر الہی اخلاق، ربانی جذبات اور میل محبت ہو تو یقینا خانوادہ بہت پر سکون اور ہنسی خوشی رہے گا اور پھر اس میں کوئی نقصان نہیں ہوپائے گا۔ بنابریں خانوادہ اور افراد و اشخاص کے درمیان ذہنی ہم آہنگی اور آسودگی کا رابطہ پایا جاتا ہے۔ لہذا بہت ساری افسردگی، اضطراب، ناکامی یا زیادہ طلبی، حسد، بخل یا ظلم و جور و غیرہ جیسی چیزوں سے دیندار گھرانے کو دور رہنا چاہیئے اور اس کی رعایت کرنے پر مرکز خانوادہ امن و امان کا مرکز بن جائے گا جو احساسات اور جذبات کی تکمیل کرتے ہوئے مثبت جواب دے گا۔ اور یہی چیز بہت ساری مشکلات کو قابو میں کرسکتی ہے۔ اور خانوادہ کی ہر فرد کو مایوسی، افسردگی اور اضطراب و گھٹن سے نجات دے سکتی ہے۔
جیسا امام خمینی (رح) خاندان عصمت و طہارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کو ہمارے گھرانے کے لئے نمونہ عمل بتاتے ہیں:
"ہمیں اس خاندان کو اپنے لیے نمونہ عمل بنانا چاہیے۔ ہمیں عورتوں کو اس گھر کی عورتوں اور ہمارے مردوں کو اس گھر کے مردوں ، بلکہ ہم سب کو ان کی پیروی کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنی زندگی مظلوموں کی حمایت اور الٰہی اقدار کو زندہ کرنے کیلئے وقف کردی۔ ہمیں ان کی اتباع کرنی چاہیے۔ ہم اپنی زندگی کو ان کیلئے وقف کردیں ۔ جو تاریخ اسلام سے آگاہ ہے وہ یہ بات جانتا ہے کہ اس خاندان کے ہر فرد نے ایک کامل انسان، بلکہ اس سے بڑھ کے ایک الٰہی انسان کی طرح ملتوں اور مظلوموں کے حق میں ان لوگوں کے خلاف قیام کیا جو ان کمزور لوگوں کو نیست ونابود کرنا چاہتے تھے۔" (صحیفہ امام، ج ۶، ص ۵۳۰)
دینداری بہت ساری اخلاقی خرابیوں اور پستیوں سے دور بای رہتی ہے اور دور رکھتی بھی ہے۔ دیندار ہونے کا مطلب زبانی دینداری نہیں ہے ورنہ دنیا میں رہنے والے سبای دینداری کا ڈنکا پٹتے اور مذہبی ہونے کا ڈھول بجاتے اور انسانی شرافت کا بلند بانگ دعوی کرتے ہیں بلکہ میری مراد سچی اور حقیقی دینداری ہی جو انسان کو دنیا میں ظلم و جور کرنے، ظلم سہنے اور باطل پرستی، نفس پرستی اور ہوا و ہوس کے پجاری ہونے سے بچاتی ہو اور آخرت میں انجام بخیر ہونے کی ضمانت دیتی ہو۔
انسان اسی وقت تمام مفاسد اور برائیوں سے دور رہ سکتا جب اس کے اندر الہی جذبہ کارفرما ہو اور رسول و امام کی سچی خالصانہ اطاعت کرتا ہو۔ ہم انسان زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں اور دین کی پابندی اور دیانت داری کا دم بھرتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں صفر اور خالی نظر آتے ہیں۔ خدا اور رسول کے نزدیک سچی نیت کے ساتھ خالصانہ عمل معیار ہے نہ دکھاوٹی اور بناوٹی۔
خداوند عالم ہم سب کو دین اسلام اور انسانوں کا سچا خدمتگذار بنائے اور عاقبت بخیر فرمائے۔ آمین۔