امام خمینی(رح) کے منجملہ کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے قرآنی پیغامات کو عوامی کلچر میں جگہ دی لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام(رح) کے انقلابی پیغامات قرآنی پیغامات تھے۔قرآنی الفاظ میں ایک لفظ ، لفظِ " مظلومین" ہے جس کے بارے میں امام (رح) ہمیشہ تاکید کیا کرتے تھے۔مظلومین کے خلاف ظالموں کی صف آرائی ، عدل و ظلم اور محروموں اور مالداروں کا تقابل ہمیشہ امام(رح) کے کلام اور پیغام میں موجیں مارتا رہا ہے ، اس سے بڑھ کر امام خمینی(رح) کا کرداریہ تھا کہ آپ(رح) زبانی، عملی، قلمی بلکہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ مظلومین و محرومین کا مکمل خیال رکھتے تھے اور آپ(رح)نے ظلم، ظالم اور مستکبرین کے خلاف محاذ آرائی اپنے بنیادی اصولوں میں سے قراردی۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ امام خمینی(رح) کی ایک خصوصیت یہ تھی آپ (رح) کے اندر پوری دنیا کے ستمگروں کے خلاف لڑنے اور مظلومین کی حمایت کا جذبہ پایا جاتا تھا، آپ(رح) حکومت کونفاذ عدالت کا ذریعہ سمجھتے نیز آپ(رح) کا عقیدہ تھا کہ ظالموں و ستمگروں کے خاتمہ تک نفاذ عدالت ناممکن ہے۔ اسی وجہ سے ملکی فضا ،مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے خلاف محاذ جنگ کی فضا تھی۔اسی طرح ایسے ملک میں حکومتی بھاگ ڈور صالحین کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے جس کی بنیادبارہویں خورشید، حضرت ولی عصر امام زمانہ(عج) ڈالیں گے۔ اس مقدس و خدائی نظام میں اشراف زادوں و ظالموں کی کسی طرح کی کوئی گنجائش نہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنی ظالمانہ خصلت اور سلطنت طلبی کے نتیجہ میں انبیاء الہی اور اولیاء دین کے قیام کے خلاف اکڑ دکھائی ۔
حضرت امام خمینی(رح) یوں بیان فرماتے ہیں: کتنی بابرکت ہے عدالت برپا کرنے والے عظیم الشان شخص کی ولادت ۔ کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد بھی یہی تھا۔ کتنی با برکت ہے اس باعظمت شخص کی ولادت جو پوری دنیا کو ستمگروں اور ظالموں کے شرّ سے پاک کرے گا، اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہے، وہ دنیا بھر کے مظلوموں کو زمین کا وارث اور ظالموں کو مٹا دے گا۔ کتنا با برکت ہے وہ دن جس دن پوری دنیا فتنہ کاروں و جنایتکاروں سے خالی ہوجائے گی اورخدائی عدالت سے لبریز حکومت پوری دنیا میں تشکیل پائے گی اور مکار و منافقین مٹ جائیں گے اور خدائی رحمت و عدالت کا پرچم پوری زمین پر لہرائے گا نیز پوری بشریت پر صرف اسلامی عدالت کا قانون حکمفرما ہوگا اور ظلم و ستم کے محل اکھڑ جائیں گے۔ (صحیفۂ امام، جلد۱۴، ص۴۷۲)۔
اس سلسلہ میں یہ کہنا چاہئے کہ انقلاب اسلامی کا پہلا اور بنیادی نعرہ مظلوموں کی حمایت ہے اور اسلامی جمہوریہ نے اسی قرآنی نعرہ کا دفاع کرنے کے نتیجہ میں کئی سالوں سے مستکبروں کی جانب سے سیاسی پہلو میں کافی دباؤ کا سامنا کیا ہے۔دشمنوں کی سازش اس وقت کامیاب ہوگی جب اسلامی انقلاب تردید کا شکار بن جائے اور جب امام خمینی(رح) نے جو ظالمین کے خلاف تمام پہلوؤں میں مظلومین کی حمایت کے لئے لہر دوڑائی اس کی پشت پناہی سے کنارہ گیری کی جائے۔
امام خمینی(رح) ہمیشہ تاکید فرماتے: میں نہیں سمجھتا کہ محرومین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی عبادت ہو۔ (صحیفۂ امام، جلد۲۰، ص۳۴۲)
نیز امام خمینی(رح) ہمیشہ فقراء و غرباء کو " ولی نعمت"کے نام سے یاد کیاکرتے اور ان کی مزید خدمت گذاری کے خواہاں تھےآپ(رح) نے بہترین انداز میں اس سلسلہ میں فرمایا: مظلوموں، فقیروں اور بے نواؤں کی خدمت کرو کہ وہ ولی نعمت ہیں۔(صحیفۂ امام، ج۱۸، ص۳۸)۔
محرومین اور مظلومین کے سلسلہ میں انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی(رح) کے بے مثال جذبہ کے نتیجہ میں آپ(رح) نہ صرف ایرانی قوم بلکہ دوسرے ممالک کے محرومین و مظلومین کے لئے بھی ایک عظیم الشان حامی کے عنوان سے پہچانے گئے تھے۔
امام خمینی(رح) کی نظر میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی معاشرے میں موجودہ مظلومین کی مرہون منت ہے محل نشینوں نے تو کوئی کام انجام نہ دیا اس سلسلہ میں امام خمینی(رح) نے فرمایا: تم لوگوں نے انقلاب کو کامیابی دلائی، پورے ملک میں جن افراد نے اس انقلاب کو کامیابی دلائی وہ یہی محروم مرد و عورتیں ہیں جو مظلوم بھی ہیں محل نشینوں نے انہیں کمزور بنایا لیکن انہوں نے ثابت کردکھایا کہ محل نشیں خود کمزور ہیں اور انہوں نے اس قوم کے لئے کوئی کام انجام نہیں دیا اور نہ ہی کوئی انجام دینے کے لئے تیار ہیں۔ (صحیفۂ امام، ج۱۴، ص۲۱۶)۔
یہ افراد آخری سانسوں تک محاذ جنگ کی وفادار طاقت اور حقیقی انقلابیوں میں سے ہیں اور اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب کا بنیادی راستہ ، مظلومین کے دفاع اور انسانی معاشروں میں فقراء و غرباء کے حقوق کی ادائگی کا راستہ ہے۔
ہمارے ساتھ آخرتک وہی رہیں گے جنہوں نے غربت، محرومیت اور مظلومیت کا درد سہا ہو، غرباء اور دیندار و بے نوا حقیقی انقلابی ہیں ، ہمیں ہر صورت میں مظلومین کا دفاع کرنا چاہئے ۔۔۔انسانی معاشروں میں ہم غرباء کے حقوق کی ادائگی کے لئے خون کے آخری قطرہ تک دفاع کریں گے۔ ( صحیفۂ امام، ج۲۱، ص۸۶و ۸۷)
اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کا بھاری بوجھ مظلومین کے کاندھوں پر ہے یہی گروہ ہے جو محاذ جنگ اور محاذ جنگ میں لڑنے والوں کی حمایت کرنے والوں میں سے ہیں اور فداکاری انجام دے رہا ہے نہ محل نشین۔ تم لوگوں کو ان مظلوموں پر توجہ رکھنا چاہئے جو اس وقت محاذ جنگ میں سختیاں برداشت کرتے ہوئے فداکاری انجام دے رہے ہیں جن کی تائید خود خدا نے کی ہے سبھی انہیں کمزور بنا رہے ہیں اور انہیں کمزور سمجھ رہے ہیں لہذا ان کے لئے کام کرو۔( صحیفۂ امام، ج۱۵، ص۷۵)۔
اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ انقلاب کا بھاری بوجھ مظلومین پر ہے لہذا ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنی توجہات کو محروم علاقوں بالخصوص ملک کے جنوبی حصہ کی جانب مبذول کریں کہ گذشتہ شہنشاہی حکومت میں اس کی جانب توجہ نہیں کی گئی۔ ( صحیفۂ امام ، ج۱۵، ص۲۷۳)
ہمیں ایرانی محروم قوم کے منافع و مقاصد کو مد نظر رکھنا چاہئے ، ہمیں پوری دنیا اور مسلمانوں کے مسائل و مشکلات کے حل اوربے نواؤں، فقیروں اور مظلوموں کی تمام وجود کے ساتھ حمایت کرنے کے سلسلہ میں تلاش کرنا چاہئے۔ (صحیفۂ امام، ج۲۱، ص۹۱)۔
ایک اور مقام پر امام (رح) فرماتے ہیں : خدا وہ دن نہ دکھائے کہ جس دن ہماری اور ہمارے ملکی عہدیداروں کی سیاست بدل جائے اور وہ محرومین کا دفاع کرنا چھوڑ دیں اور اغنیاء و مالدار وں پر توجہ مبذول کی جائے ، معاذ اللہ ایسا عمل سیرت انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے خلاف ہے۔ (صحیفۂ امام، ج۲۰، ص۳۴۱)۔