انجینئر فرج اللہ رجبی نے اس سوال کہ "امام خمینی (رح) کی کیا خصوصیتیں تھیں کہ آپ لوگوں کو بیدار کرنے میں موثر ہوسکے اور لوگوں کو بیدار کرنے سے کیا مراد ہے؟ " کے جواب میں کہا:
امام (رح) کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حیات طیبہ کے مالک تھے اور اس درجہ اثر رکھتے تھے کہ آپ اپنی اس حیات طیبہ کو معاشرہ میں منتقل کرتے تھے۔ آمنے سامنے جوانوں نے انقلاب کے اغاز میں مختلف مقامات پر انقلاب اور ملک کے لئے کام کیا اور اس کا پاکیزہ دفاع کیا اور آج ان میں سے اکثر ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ یه سب اسی حیات طیبہ کا ایک مجسمہ ہیں جو امام (رح) کی روحانی شخصیت سے لوگوں کی لئے عملی نمونہ بنی ہے۔ یہ امام (رح) میں سب سے پہلا رکن ہے، دوسرا نکتہ یہ تھا کہ امام (رح) نے لوگوں کو کس طرح بیدار کیا اور بیداری سے هماری کیا مراد ہے؟ اس چیز میں بیداری کہ میں ایک فرد کے عنوان سے سمجھتا ہوں۔ امام (رح) فرماتے ہیں: بیداری مکتبی حیات کی نسبت سے۔ بیداری اس کی نسبت ہے کہ ہم لوگ ایک مسلمان کے عنوان سے اسلامی زندگی گزاریں۔ جب ہم نے مان لی تو پھر مسلمان ہیں اور اسلامی زندگی گزاریں جو ان ہزار فریضہ پر ہوتی ہے۔ ہم ان میں سے ہر یاک کو انجام دیں ایک ہوگی ہماری انقلاب وجہ، ایک دینی صورت اور ایک اخلاقی اور تشریعی صورت ہوگی۔
ہم کہنا چاہتے ہیں کہ امام (رح) ایک روشن تصویر، واضح اور مقبول مفہوم پیش کرسکے۔ (چونکہ ہم کبھی کبھی دین کی ایک تصویر دیکھتے ہیں کہ مقبولیت حاصل نہیں کرتی)
اس کے بعد لوگوں نے محسوس کیا کہ اگر دین یہ ہے تو دینداری بہت اچھی چیز ہے۔ آپ غور کریں کہ اس کا خلاصہ یہ ہوا۔ آسانی کے ساتھ اس دور کے جوان اپنے جاں نثار کرنے میں پیش پیش رہے۔ آپ کو دینی ثقافت اور حضرت ابوالفضل العباس (ع) کے بارے میں دعاؤں میں ملاحظہ کرتے ہیں۔ ایسا بھائی جو جان اور مال کا نذرانہ پیش کرنے میں درریغ نہیں کرتا تھا۔ ہمارے جوان بھی اس منزل پر فائز ہوچکے تھے۔ یہ مرحلہ خود ہی ایک حیرت انگیز بیداری کا مرحلہ ہے۔ آپ کی مد نظر بیداری سے بالاتر ہے، لیکن اہم بات یہ ہی کہ ایک وقت آپ ایک گروہ کا رہبر کے عنوان سے ایک جماعت کے رہنما اور ایک دھڑنے کے قائد کے عنوان سے کچھ لوگوں میں اپنا اثر دکھا سکتے ہیں۔ 50/ ، 100/ ، 200/ افراد میں لیکن امام خمینی (رح) ایک قوم اور ملت میں اثر رکھتے تھے یہ بہت اہم ہے۔ اس کلام کی گہرائی کو سب جانتے ہیں۔ اس وقت تو نہ ریڈیو اور ٹیلیویژن کا مرکز تھا کہ آپ کی باتوں کو دوسروں تک پہونچایا جاتا، نہ اس وقت تبلیغات تھیں اور نہ سائٹ و غیرہ اور نہ ہی ذرائع ابلاغ موجود تھے۔ اور ہماری توجہ بھی ذرائع ابلاغ پر نہیں تھی۔ یہ وہی امام کی معنوی شخصیت تھی، آپ کی وہی حیات طیبہ تھی جو ہر جگہ اور ہر شخص میں جلوہ گر ہو رہی تھی۔
ملاحظہ کریں اس سوال کے دو پہلو ہیں: کیا امام کا اثر اسی طرح جاتی ہے۔ میری نظر میں امام (رح) کا اثر ایک پتھر کے مانند ہے کہ آپ ایک تھہرے ہوئے پانی میں ڈالتے ہیں تو ایک موج پیدا ہوتی ہے اور ساحل تک جاتی ہے۔ ممکن ہے وہ پتھر موجوں کے ساحل تک پہونچنے تک پانی کی گہرائی میں جا چکا ہو۔ لیکن وہ موج اسی طرح ساحل تک پہونچ رہی ہوتی ہے۔
ایک ایسی تحریکیں ہیں جو کسی زمانہ تک محدود نہیں ہیں۔ نہ صرف اس رخ سے بلکہ بلکہ میرا خیال یہ هے کہ امام (رح) کی تحریک اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کے اہل افراد بیٹھ کر مزید غور و خوض کریں۔ چونکہ اس کے اندر بہت سے پہلو ہیں۔ دینی، سیاسی، اجتماعی، اخلاقی اور عرفانی۔ یہ بہت اہم ہے کہ کسی معاشرہ کی رہبری کو عارف کر رہا ہو۔ پوری تاریخ میں اس قسم کے رہبر بہت کم ہوتے ہیں لیکن بہت کم اور محدود۔ اس طرح نہیں تھا بلکہ ایک فرقہ تھا ایک گروہ اور ایک قبیلہ تھ، لیکن جہاں تک مجھے معلومات ہے مسئلہ اسی طرح پیچیدہ ہے، جب ہم امام شناسی کو پیش کرنا چاہتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ صحیفہ امام کی طرف رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب معلومات ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے اور دیگر محققین کو اس فضا سے کامیاب ہونے کا موقع دیا جائے بالخصوص ان جوانوں کو جو امام کے پیروکار ہونا چاہتے ہیں۔