آیت اللہ سید کمال حیدری

فلسفہ اور امام خمینی(رح)، آیت اللہ سید کمال حیدری کی نظر میں

ابن عربی اور ان کے آثار پر امام خمینی (رح) کی نظر تنقیدی ہے نہ تقلیدی

نا چیز کی نظر میں امام خمینی(رح) اچھی طرح متوجہ تھے کہ حکمت متعالیہ اور صدرائی فلسفہ کی بنیاد ابن عربی کے نظری عرفان میں ہے۔ اور ملاصدرا کے بعد حکمت متعالیہ کے اصول و قواعد (چارو ناچار) شیعہ کلام، اصول اور فقہ میں ذکر ہوئے ہیں۔ جیسے معنائے حرفی کے جس کے بارے میں علم اصول فقہ میں بحث ہوتی ہے اس کی اصل وجود ربطی میں ہے؛ کو ملاصدرا نے اس کے بارے میں حکمت متعالیه میں بحث کی ہے۔ اگر آپ ملاصدرا کے کلام میں وجود رابط کی اصل تلاش کریں گے تو شیخ ابن عربی کے اصول میں موجود پائیں گے۔ امام خمینی (رح) اس بات کی طرف متوجہ ہوئے کہ اگر ہم دقیق انداز میں اصولی، کلامی، اعتقادی اور تفسیر اصول و قواعد کی تحقیق کریں جس کا تار و پود ملا صدرا کے فلسفہ اور حکمت متعالیہ میں ہے تو ہم کو ابن عربی سے شروع کرنا چاہئیے۔

امام 30/ سال کی عمر میں ابن عربی کے آثار کی تدریس کرتے ہیں اور اس پر حاشیہ اور تعلیقہ لگاتے ہیں۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ ابن عربی اور ان کے آثار پر امام خمینی (رح) کی نظر تنقیدی ہے نہ تقلیدی۔ یعنی بینی اور بین اللہ ایسا نہیں تھا کہ امام صرف ابن عربی کی تعریف اور توصیف کریں۔ کیوں؟

کیونکہ امام (رح) ایک صاحب نظر اور جامع العلوم انسان تھے۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ امام خمینی (رح) ایک فقہی اور اصولی مرجع ہوں۔ اگر انسان، امام خمینی (رح) کی تفسیر کی جانب متوجہ ہونا چاہے (وہی سوره حمد کی تفسیر جو چند تقریروں کا مجموعہ ہے) کافی ہے کہ وہ دیکھے کہ امام (رح) کی تفسیری روش کہاں اور اس کی گہرائی کس درجہ ہے؟ عرفان میں بھی آپ کے فصول الحکم پر حواشی ملاحظہ فرمائیں۔ امام (رح) نے یہ حواشی 30/ سال کی عمر میں لگائے ہیں کہ اس عمر میں آج ہمارے طالب علم مقدماتی دورہ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ سطوح عالیہ میں مشغول ہیں۔ نہ کہ فصوص اور مصباح و غیره  کو تمام کیا ہو اور اس پر تعلیقہ اور حاشیہ لگایا ہو۔ آپ فقہ و اصول میں عظیم المرتبت اور اعلی قدر عالم تھے۔ لہذا نا چیز کا عقیدہ ہے کہ امام خمینی (رح) کے علم اصول، فقہ اور کلام سے دوسروں کے اصول، فقہ اور کلام کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ امام (رح) کے اصول دوسروں کے اصول اور قواعد سے جدا ہیں۔ امام (رح) کے اصول وجودی اور عرفانی وحدت ہے لہذا آپ ملاحظہ کریں گے کہ امام نے جب اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اصول میں زمان و مکان کی تھیوری اور نظریہ پیش کیا گیا آپ گمان کررہے ہیں که یہ سب یکبارگی امام (رح) پر الہام ہوگئے ہیں؟ یہ اصول انہی قواعد سے تعلق رکھتے ہیں جو اس وقت ظاہر ہورہے ہیں۔ واقعا بہت دنوں سے اس بات کی احتیاج ہے زمان و مکان کے بارے میں امام (رح) کے اصول کی وضاحت کی جائے کیونکہ اب تک زمان و مان کے بارے میں امام (رح) کے اصول کماحقہ بیان نہیں ہوئی ہیں۔ اگر چہ زمان و مکان کے بارے میں بہت باتیں کی گئی ہیں لیکن ساری باتیں زمان و مکان کے بارے میں امام (رح) کی تھیوری کا ایک جز ہے کیونکہ زمان و مکان سے متعلق تمام مباحث کی فقہ سیاست اور اجتماع میں تطبیق کی گئی هے۔ میرا خیال ہے کہ امام کی تھیوری اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے جو اب تک بیان ہوئی ہے۔ زمان و مکان کا عقائد میں بھی دخل ہے۔ میں آپ کے لئے ایک چھوٹی سی مثال دے رہاہوں۔ ایک دور (متوکل اور اس جیسے کا دور) جو امام حسین (ع) کی زیارت کو جانا چاہتا تھا تو اسے اپنے پاؤں یا سر کی قربانی دینی پڑتی تھی (یہ تاریخ میں مذکور ہے) اور وہ اس طرح سے جا کر زیارت کرتا تھا۔ اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ لیکن اس وقت جو کوئی اربعین کے موقع پر زیارت کے لئے پیدل جاتا ہے اس کے راستہ میں اس کے ہاتھ یا پاؤں کو دباتے ہیں، کھانا دیتے، اور اس کے آرام کرنے کے لئے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قسم کے زائرین اور مذکورہ بالا زائرین کا ثواب برابر ہے؟ ہرگز یہ دونوں قابل موازنہ نہیں ہیں۔ یہ مثال زمان و مکان کی اعتقادی مسائل میں تاثیر کے بارے میں اور اس کے علاوہ دسیوں دیگر مثالیں۔

ای میل کریں