اہلِ ثروت ساغرِ عیش و طرب سے مست تھے / گردنیں اکڑی ہوئی تھیں فکر میں گو پست تھے
دین میں کزور تھے اور دل کے ظالم سخت تھے / اس قدر ناداں تھے وہ اور بے نیاز ہست تھے
سادگی اور دینداری اک نظر بھاتی نہ تھی
سب گزیدہ تھے مگر ن کو سحر بھاتی نہ تھی
دین کیا ہے؟ کوئی واضح دین کی صورت نہ تھی / کیا نظام عدل کی قاتل ملوکیّت نہ تھی؟
حق کو حق کہہ دے کسی کے دل میں یہ جرات نہ تھی / اور متاعِ دین و دانش کی کوئی قیمت نہ تھی
عہدِ شاہِ خائن و بد کار تھا عہدِ ذلیل
جس کے سر پر آ لگی اک ضربِ فرزند خلیل
سینہ تاریک سے پھر نور کی پھوٹی کرن / مرہمِ زخمِ غریبان بن گیا حرفِ سخن
چاک ہو کر رہ گیا پیراہن مکر و فتن / اور زمیں پر آ گرا مینارہ قصر کہن
پرچمِ اسلام لے کر یوں خمینی آگیا
جیسے دشتِ کربلا میں اک حسینی آ گیا
اہلِ شرق و غرب میں اسلام کا ڈنکا بجا / بادِ صرصر کو مٹانے آ گئی باد صبا
پی رہے ہیں اہل ایران بادہ نابِ وِلا / مٹ گیا لوحِ عجم سے نقشہ جور و جفا
انقلابِ دین کے وہ مرحلے آنے لگے
قصرِ استبداد میں پھر زلزلے آنے لگے
ہے کتابوں میں رقم اب تک حدیثِ مصطفی / ایک دن سلمان سے یوں آپ نے برحق کہا
دین میرا ہوگا روحِ اصل میں جلوہ نما / دیکھ لے گی چشمِ عالم یہ بھی حق کا معجزہ
خاکِ ایراں سے طلوعِ دین حق ہوجائے گا
اور جو ٹکرائے گا اس سے وہ شق ہوجائے گا
ظالموں کے واسطے ایران ہے تیغِ اصیل / لشکرِ فروعون کی خاطر بنا یہ رودِ نیل
کیا زمانے کو نہیں ازبر ابھی آیاتِ فیل / انقلابِ زیر دستاں بے مثال و بے عدیل
اصل میں یہ انقلابِ فکرِ معصومین ہے
مرگِ استکبار ہے یہ روزِ مظلومین ہے