رمضان کا مہینہ طهارت و پاکیزگی، اسلامی آداب اور الہی صفات سے آراستگی کا مہینہ ہے، خدا کی عبادت اور بندگی اور ماسوا اللہ سے حریت اور آزادی کا مہینہ ہے، تزکیہ نفس، تطہیر باطن اور دل کو تمام کدورتوں سے پاک کرنے کا مہینہ ہے۔ خود کو خدا کی مہمانی کے لئے آمادہ کرنے اور اس کی مہمانی کے لائق بنانے کا مہینہ ہے، اپنے ظاہر اور باطن کو سنوارنے کا مہینہ ہے، دعا اور درخواست، خدا کی بارگاہ میں راز و نیاز، التجا اور در خواست کا مہینہ ہے، عفو و درگذر اور توبہ و انابت، عبادت اور تلاوت قرآن اور بہار رمضان کے پر فیض نتائج سے بہرہ مند ہونے کا مہینہ ہے۔
حق کی جانب فہمی اور دین سیکھنے اور سکھانے کا مہینہ ہے۔ قرآنی آداب و سنن پر عمل کرنے اور لوگوں کو ہدایت و نصیحت کرنے اور خود کو اس عظیم ماہ کی برکتوں سے مالامال کرنے کا مہینہ ہے۔ صدقہ و خیرات، خدا کے بندوں کی خیر خواہی اور ان نصرت و امداد کرنے نیز بھوک اور پیاس کا مزہ چکھ کر غرباء و مساکین کے بھوک اور پیاس یاد کرنے کا مہینہ ہے۔ اللہ سے مناجات کرکے لطف اندوز ہونے اور اپنی عاقبت سنوارنے کا مہینہ ہے۔ یہ اسلام اور ہدایت و عبادت، ریاضت نفس اور محاسبہ کا مہینہ ہے۔ یہ امتحان اور آزمائش کا مہینہ ہے۔ اسی ماہ میں لوگوں کی ہدایت کے لئے قرآن نازل ہوا ہے اور حق و باطل کے درمیان تمیز دینے کے لئے اس ماہ با عظمت میں قرآن نازل ہوا ہے۔
اس کی حقیقت اور اس کا باطن خدا تک پہونچنا اور قربت الہی کا مالک بننا ہے، خود کو شیطان اور نفس امارہ اور ہوا و ہوس کے زندان سے آزادی دلانے اور حیوانی نفس سے آزاد ہونے اور الہی پیدائش کا نام ہے۔ کیونکہ عالم ہستی اور دنیائے ہست و بود میں جو کچھ بھی ہے اس کی ایک حقیقت اور اس کا ایک باطن ہے؛ کیونکہ دنیا عالم بالا کا ایک ادنی مرتبہ ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ عالم معنی کا ایک نمونہ ہے۔
اسی عظیم اور با برکت اور خیر و سعادت سے لبریز مہینہ کا استقبال کرتے ہوئے ہمارے اور آپ کے چوتھے امام، چھٹے معصوم اور رسولخدا (ص) کے پانچویں جانشین حضرت امام زین العابدین (ع) خدا کی عبادت اور بندگی، اس کی ہدایت کی عظیم نعمت پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
اس خدا کا شکر جس نے ہدایت کے راستوں کو خود اپنا مہینہ یعنی ماہ رمضان کو قرار دیا ہے، یہ قیام و قعود اور رکوع و سجود، شب زندہ داری اور ذکر و فکر کا مہینہ ہے۔
ماہ اسلام جیسی عبارتوں سے امام سجاد (ع) کا توصیف کرنا اس بات کی حکایت کررہا ہے کہ امام سجاد اور مکتب اہلبیت (ع) کی نظر میں ماہ مبارک رمضان حقیقت اسلام کی تجلی اور اس کے ظہور کا میدان ہے یعنی خداوند سبحان کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور بے چون و چرا اس کی بندگی کرنا ہے۔
یہ ایک ایسا میدان اور ایک ایسی فرصت ہے کہ خدا کے بندے اس کی حکم اور اس مرضی سے اپنی فطری اور حلال ضرورتوں کب بھی نظر انداز کرکے اپنے بے نظیر وحدہ لاشریک لہ اور صاحب جلال و کمال خالق کے سامنے سر نیاز خم کردیں۔ یہ ایک ماہ کی مشق نفس کو اس کی خواہشات سے روکنے اور نفسانی مطالبہ سے دور رہنے کے لئے ایک مفید اور اچھی تمرین ہے تا کہ ارادہ کو قوی کرے اور پورے سال خود کو بچائے اور خدا کا سچا بندہ بنے۔ اس ایک ماہ کے دن میں خدا انسان سے بہت ساری حلال لذتوں سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے تا کہ اس کے اندر اپنے نفس کی فطری خواہشات پر کنٹرول کرنے کی عادت ہوجائے اور خدا کی بندگی کا حق ادا ہو۔ خداوند عالم خود ہی روزه کی جزا بن گیا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے: الصوم لی و انا اجزی به۔
لہذا بڑے هی افسوس اور حسرت کا مقام ہے کہ انسان خود سے یا غیر اللہ یا متغیر چندوں سے دل لگائے کیونکہ خدا کے علاوہ جو بھی ہے وہ فانی اور زائل ہونے والی ہے لہذا وہ انسان کی جزا نہیں ہوسکتی۔ روزہ دار کی جزا خدا کی ملاقات اور اس کا تقرب ہے۔ اور یہ صرف اور صرف بندگی اور خدا کی خالصانہ عبادت سے حاصل ہوسکتا ہے۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ اس با برکت اور سعادت خیز ماہ کی بدولت اپنے تمام بندوں کو نیکی اور ہدایت اور برائی سے بچنے کی توفیق عطا کرے اور اس ماہ میں ہر فرد کو ہدایت اور آراستگی اور تقوی و پرہیزگاری کے زیور سے آراستہ کرکے اور ہم سب کی عاقبت بخیر فرما کر مقام علیین کا مالک بنائے۔آمین۔