تمام بنی نوع انسان کی فطرت اور طبیعت میں عظیم اور صاحبان کرامت ہستیوں اور ذوات مقدسہ کی تعظیم کی گئی ہے۔ اگر انسان کسی صاحب کمال اور عظمت و شان کے مالک انسان کی تعظیم کرے اور اسے اس کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کے ساتھ پہچانے تو یہ انسان کے اندر موجود فطری جذبہ کی بدولت ہے۔
اگر کوئی انسان اور اللہ کا نیک بندہ ہے تو وہ اپنے سے عظیم اور اعلی صفت انسان کی قدردانی کرے گا اور اسے اونچا مقام دے گا لیکن ایسا اس وقت ہو سکتا ہے جب اس کی فطرت دنیاوی نجاستوں اور خیالی گندگیوں سے آلودہ نہ ہوئی ہو۔ یہ جذبہ ہر اسنان کے اندر یکساں طور سے نظر آتا ہے۔ جو لوگ کسی عالم دین کے علم و عمل اور اس کی عظمت و بزرگی سے واقف ہوں اور اس کے بارے میں معلومات رکھتے ہوں تو اس کی فطرتا تعظیم اور تکریم کریں گے اور کرنا بھی چاہیئے کیوں کہ یہ کام اس نے اپنی فطرت کے مطابق انجام دیا ہے۔ اگر انجام نہ دے تو یہ کہا جائے گا کہ یہ اپنی انسانی اور اسلامی فطرت کے خلاف کررہا ہے۔
خدا کا بندہ یقینا ایسا کرے گا کیونکہ جب تک انسان کسی کی معرفت اور شناخت نہیں رکھتا اس وقت تک وہ کسی کی تعظیم نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کا احترام کرے گا۔ عظمت و احترام کی پہلی منزل مد نظر شخص کے بارے میں صحیح اور الہی معلومات کا ہونا ہے۔
عظیم ہستیاں جو بھی کرتی ہیں خداوند عالم کی راہ میں اور خدا کے لئے کرتی ہیں وہ ہر قسم کے نام و نمود اور شہرت طلبی کے جذبہ سے دور رہتی ہیں۔ نہ انھیں کسی سے احترام کی توقع ہوتی ہے اور نہ ہی دولت اور شہرت کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ ان کی نزدیک صرف اور صرف خدا اور الہی امور اہمیت رکھتے ہیں یہ خدا کے بندوں کے درمیان خدائی پیغامات پہونچانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور امن و سلامتی کے خواہاں رہتے ہیں۔ وہ ہر جگہ اور ہر انسان سے خدائی مظاہر کے جلووں کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیونکہ خداوند عالم نے سارے انسانوں کو اسلامی فطرت پر پیدا کیا ہے۔
اچھے اور نیک لوگ کبھی مال و منال، جاہ و حشم اور شہرت و چرچہ کی فکر میں نہیں رہتے۔ سارے انسان ہی انہیں پاک و پاکیزہ فطرت اور طیب و طاہر طینت کے مطابق خود بھی الہی بننے کی کوشش کرتے ہیں اور وسروں کو بھی اللہ کے راستوں کا سالک بناتے ہیں۔