تیسری شوال سن 247 ھ ق کو دسواں عباسی خلیفہ واصل جہنم ہوا۔ متوکل ایک خبیث اور بد طینت اور بدکردار انسان تھا اور جیسا کہ امیر المومنین نے فرمایا: «اکفر آل عباس» تھا اور آل ابوطالب سے سخت دشمنی کرتا تھا۔ متوکل کی دشمنی کی حد یہ تھی کہ وہ امام حسین (ع) کی زائرین کو آپ کی زیارت کرنے سے روکتا تھا۔ امیرالمومنین (ع) کی زیارت پر پابندی لگائے ہوا تھا اور اس کا ارادہ تھا کہ امام حسین (ع) کے قبر کے آثار مٹادے (و یابی الله الا ان یتم نوره) خدا اپنے نور کو تمام کرکے رہے گا۔ کہا گیا ہے کہ متوکل نے 17/ بار اس قبر شریف کو خراب کیا پھر بھی پہلی صورت میں ہوگئی۔
روایت ہے کہ جب حضرت زینب (س) نے کربلا سے حرکت کرتے وقت چوتھے امام (ع) کا اضطراب اور جزع و فزع دیکھا تو کہا: سرزمین کربلا میں تمہارے باپ کی قبر پر علامت نصب کریں تا کہ کبھی اس کا نسان نہ مٹے اور شب وروز کی آمد و شد سے اس کا نشان باقی رہے لہذا سلاطین اور ظالموں کے اعوان انصار نے اسے مٹانے کی جتنی کوشش کی اتنی ہی اس میں مضبوطی آتی گئی اور اس کی بلندی بڑھتی گئی۔
اور ایسا ہوا جیسا عالمہ غیر معلمہ نے کہاتھا۔ مسلسل لوگ اس قبر مطہر کی زیارت کرنے جاتے رہے۔ اور اس قبر منور کی تعمیر میں کوشش کرتے رہے اور وہاں پر مجاورت اختیار کرلی اور یہ نوبت آگئی کہ نیا شہر بن گیا اور وہاں بڑی بڑی عمارتیں اور پاک و پاکیزہ محل بن گئے جو اس وقت مشاہد کہلاتے ہیں۔ امیر المومنین (ع) نے وہاں کی عمارتوں اور قصروں کی خبر دی تھی۔
شیخ بہائی نے فرمایا: اس دن غزوہ حنین واقع ہوئی ہے۔ فتح مکہ کے بعد 15/ دنوں تک ہوئی اور اسلامی لشکر کی تعداد 12/ ہزار تھی اس جنگ میں ان میں سے صرف 4/ ہزار افراد ہی مارے گئے تھے۔ جان لیجئے کہ حنین، مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے کہ حضرت رسولخدا (ص) نے ہوازن اور ثقیف کے لشکر سے جنگ کی اور یہ دونوں قبیلہ مسلمانوں کے قتل پر متحد تھے۔ جب اس کی خبر رسولخدا (ص) کو دی گئی تو آپ 12/ ہزار افراد کے ساتھ ان کی طرف پڑھے که ان میں سے دو ہزار افراد «طلقاء» یعنی رسولخدا (ص) کے آزاد کردہ تھے۔ جب ابوبکر نے مسلمانوں کی کثرت اور کفار کی قلت دیکھی تو نظر لگا دی؛ ابوبکر کے نظر لگانے پر مسلمانوں پر اثر ہوا۔ کفار اچانک کمین سے مسلمانوں پر تیر برسانا شروع کردی۔ مسلمان فرار کرنے لگے اور سب بھاگ گئے۔ اس جنگ میں صرف 10/ بنی ہاشم کے اور ایک آدمی انصار کا مارا گیا۔ ایک روایت کے مطابق 4/ افراد کے سوا کوئی باقی نہیں بچا کہ ان میں سے 3/ آدمی بنی ہاشم کے تھے۔ امیرالمومنین (ع)، عباس اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب۔
پیغمبر (ص) نے اپنی سوار پر سوار ہوئے اور دشمن کی طرف آئے اور ان پر حملہ کرکے فرمایا: میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں۔ یہی وہ جنگ ہے جس میں پیغمبر (ص) نے نعرہ لگایا اور رجز پڑھی ہے۔ عباس مامور ہوئے کہ فرار کرنے والوں کو آواز دیں کیونکہ ان کی آواز بلند تھی اور ایک فرسخ یا اس سے زیادہ آپ کی آواز جاتی تھی۔ پھر اصحاب واپس آگئے ۔ رسولخدا (ص) نے فرمایا: اب جنگ کی آگ روشن ہوئی ہے پھر کچھ مٹی کافروں کی طرف پھینکا ۔ ہوازن کا کوئی ایسا نہیں بچا جس کی آنکھ اور جس کا کان گرداٹا نہ ہو اور شکست کھا گیا۔ امیرالمومنین (ع) ابوجرول کہ ہوازن کا بہت بہادر اور ہاتھ میں کالا جھنڈا لئے ہوئے تھا اور اسی نے کچھ مسلمانوں کو مارا بھی تھا؛ کو ایک ضرب میں خاک و خون میں غلطان کردیا۔ خداوند عالم نے سورہ برائت میں اسی غزوہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تیسری شوال سن 247 ھ ق کو دسواں عباسی خلیفہ واصل جہنم ہوا۔ متوکل ایک خبیث اور بد طینت اور بدکردار انسان تھا اور جیسا کہ امیر المومنین نے فرمایا: «اکفر آل عباس» تھا اور آل ابوطالب سے سخت دشمنی کرتا تھا۔ متوکل کی دشمنی کی حد یہ تھی کہ وہ امام حسین (ع) کی زائرین کو آپ کی زیارت کرنے سے روکتا تھا۔ امیرالمومنین (ع) کی زیارت پر پابندی لگائے ہوا تھا اور اس کا ارادہ تھا کہ امام حسین (ع) کے قبر کے آثار مٹادے (و یابی الله الا ان یتم نوره) خدا اپنے نور کو تمام کرکے رہے گا۔ کہا گیا ہے کہ متوکل نے 17/ بار اس قبر شریف کو خراب کیا پھر بھی پہلی صورت میں ہوگئی۔
روایت ہے کہ جب حضرت زینب (س) نے کربلا سے حرکت کرتے وقت چوتھے امام (ع) کا اضطراب اور جزع و فزع دیکھا تو کہا: سرزمین کربلا میں تمہارے باپ کی قبر پر علامت نصب کریں تا کہ کبھی اس کا نسان نہ مٹے اور شب وروز کی آمد و شد سے اس کا نشان باقی رہے لہذا سلاطین اور ظالموں کے اعوان انصار نے اسے مٹانے کی جتنی کوشش کی اتنی ہی اس میں مضبوطی آتی گئی اور اس کی بلندی بڑھتی گئی۔
اور ایسا ہوا جیسا عالمہ غیر معلمہ نے کہاتھا۔ مسلسل لوگ اس قبر مطہر کی زیارت کرنے جاتے رہے۔ اور اس قبر منور کی تعمیر میں کوشش کرتے رہے اور وہاں پر مجاورت اختیار کرلی اور یہ نوبت آگئی کہ نیا شہر بن گیا اور وہاں بڑی بڑی عمارتیں اور پاک و پاکیزہ محل بن گئے جو اس وقت مشاہد کہلاتے ہیں۔ امیر المومنین (ع) نے وہاں کی عمارتوں اور قصروں کی خبر دی تھی۔
شیخ بہائی نے فرمایا: اس دن غزوہ حنین واقع ہوئی ہے۔ فتح مکہ کے بعد 15/ دنوں تک ہوئی اور اسلامی لشکر کی تعداد 12/ ہزار تھی اس جنگ میں ان میں سے صرف 4/ ہزار افراد ہی مارے گئے تھے۔ جان لیجئے کہ حنین، مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے کہ حضرت رسولخدا (ص) نے ہوازن اور ثقیف کے لشکر سے جنگ کی اور یہ دونوں قبیلہ مسلمانوں کے قتل پر متحد تھے۔ جب اس کی خبر رسولخدا (ص) کو دی گئی تو آپ 12/ ہزار افراد کے ساتھ ان کی طرف پڑھے که ان میں سے دو ہزار افراد «طلقاء» یعنی رسولخدا (ص) کے آزاد کردہ تھے۔ جب ابوبکر نے مسلمانوں کی کثرت اور کفار کی قلت دیکھی تو نظر لگا دی؛ ابوبکر کے نظر لگانے پر مسلمانوں پر اثر ہوا۔ کفار اچانک کمین سے مسلمانوں پر تیر برسانا شروع کردی۔ مسلمان فرار کرنے لگے اور سب بھاگ گئے۔ اس جنگ میں صرف 10/ بنی ہاشم کے اور ایک آدمی انصار کا مارا گیا۔ ایک روایت کے مطابق 4/ افراد کے سوا کوئی باقی نہیں بچا کہ ان میں سے 3/ آدمی بنی ہاشم کے تھے۔ امیرالمومنین (ع)، عباس اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب۔
پیغمبر (ص) نے اپنی سوار پر سوار ہوئے اور دشمن کی طرف آئے اور ان پر حملہ کرکے فرمایا: میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں۔ یہی وہ جنگ ہے جس میں پیغمبر (ص) نے نعرہ لگایا اور رجز پڑھی ہے۔ عباس مامور ہوئے کہ فرار کرنے والوں کو آواز دیں کیونکہ ان کی آواز بلند تھی اور ایک فرسخ یا اس سے زیادہ آپ کی آواز جاتی تھی۔ پھر اصحاب واپس آگئے ۔ رسولخدا (ص) نے فرمایا: اب جنگ کی آگ روشن ہوئی ہے پھر کچھ مٹی کافروں کی طرف پھینکا ۔ ہوازن کا کوئی ایسا نہیں بچا جس کی آنکھ اور جس کا کان گرداٹا نہ ہو اور شکست کھا گیا۔ امیرالمومنین (ع) ابوجرول کہ ہوازن کا بہت بہادر اور ہاتھ میں کالا جھنڈا لئے ہوئے تھا اور اسی نے کچھ مسلمانوں کو مارا بھی تھا؛ کو ایک ضرب میں خاک و خون میں غلطان کردیا۔ خداوند عالم نے سورہ برائت میں اسی غزوہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔