حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شادی، تاریخ تشیع کا اہم ترین واقعہ ہے کہ اس مبارک و مسعود اور عشق و محبت سے لبریز رشتہ کا نتیجہ امامت کا گہربار درخت ہے۔ لیکن اس مبارک شادی کی تاریخ کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔ لیکن ایران کی رسمی جنتری میں ذی الحجہ کی پہلی تاریخ اس ازدواج کی تاریخ کے عنوان سے تعیین کی گئی ہے۔
شادی کے وقت حضرت زهراء (س) کی عمر مبارک میں علماء شیعہ کا عقیدہ ہے کہ اس وقت آپ کی عمر 9/ یا 10/ سال کی تھی۔ اسی طرح حضرت علی (ع) کی عمر مبارک 21/ سال اور 5/ مال تھی۔
آپ سے شادی کرنے کے خواہشمندوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ابوبکر اور عمر کا بھی نام ہے لیکن حضرت رسولخدا (ص) نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ میں حضرت زہرا (ع) کی شادی کے بارے میں وحی الہی کا منتظر ہوں۔ خواہشمند بہت تھے لیکن آپ کے والد گرامی حضرت محمد مصطفی (ص) نے اپنے خاندان کے لوگوں کے درمیان سے ان کی ہمسری کے لئے حضرت علی کا انتخاب کیا اور فرمایا: تمہیں میں اس شخص کی زوجیت میں دے رہاہوں جو سب سے بہتر اور اسلام لانے کے اعتبار سے سابق ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسولخدا (ص) کے اصحاب و انصار نے اوس قبیلہ رئیس سعد معاذ سے گفتگو کی اور علم و آگہی کے ساتھ ان لوگوں نے جان لیا کہ اس رشتہ کے لئے حضرت علی (ع) کے سوا کوئی مناسب نہیں ہے۔ حضرت زہرا(ع) کا ان کے علاوہ کوئی کفو اور ہم پلہ نہیں ہے۔ اور پیغمبر (ص) بھی ان کے علاوہ کسی اور کو اس کے لائق نہیں جانتے۔
حضرت علی (ع) ے رشتہ مانگنے کی کیفیت
ضحاک بن مزاحم نقل کرتے ہیں کہ میں حضرت علی (ع) سے سنا ہے کہ آپ نے حضرت زہراء (س) سے شادی کرنے کی درخواست کے بارے میں فرمایا:
میں رسولخدا (ص) کے پاس گیا تو آپ (ص) مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے: اے علی! تم نے سچ کہا؛ تمہارا اس سے کہیں بلند وبالا ہے جو تم نے بیان کیا ہے۔ میں نے کہا: رسولخدا! آپ، فاطمہ زہرا (س) کی مجھ سے شادی کردیں۔ آپ نے فرمایا: اے علی! تم سے پہلے چند لوگوں نے یہ درخواست کی ہے لیکن جب بھی میں نے فاطمہ کو بتایا تو انہوں نے رضایت نہیں دی، تم کچھ دیر انتظار کرو تا کہ میں ان کے پاس جاکر اس بارے میں ان کی رائے لے لوں۔
رسولخدا (ص) حضرت فاطمہ (س) کے پاس گئے۔ فاطمہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور باپ کی ردا ہاتھ میں لیں اور ان کی جوتیاں اتاریں اور ان کے ہاتھ دھونے کے لئے پانی لائیں اور ہاتھ پاؤں دھونے کے بعد بیٹھ گئیں۔ پھر رسولخدا (ص) نے فرمایا: اے فاطمہ! جاب دیا: فرمائیے، کیا حکم ہے اے رسولخدا (ص)؟ فرمایا: علی بن ابیطالب سے اپنی رشتہ داری، ان کی فضیلت اور اسلام میں سابقہ کو تم جانتی ہو اور میں نے خدا سے درخواست کی تھی کہ تمہاری شادی اس سے کرائے جو بہترین مخلوق اور اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو۔ اور علی (ع) نے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔ اس پر تمہاری کیا رائے ہے؟ یہ سن کر بی بی خاموش ہوگئیں اور منہ نہیں پھیرا، رسولخدا (ص) نے آپ کے چہرہ پر ناپسندیدگی کا کوئی اثر ملاحظہ نہیں فرمایا۔ پھر اٹھے اور کہا: الله اکبر! ان کی خاموشی، ان کی رضایت کی علامت ہے۔
پھر جبریئل رسولخدا (ص) کی خدمت میں آئے اور فرمایا: اے رسولخدا! آپ فاطمہ کی علی سے شادی کردیں۔ کیونکہ خدا نے بھی ان دونوں کی شادی کو پسند کیا ہے۔ رسولخدا (ص)، حضرت زہرا (س) سے اجازت لیکر حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا: اے علی ! تمہارے پاس شادی کے لئے کچھ ہے؟ جواب دیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میرے بارے میں آپ بهتر جانتے ہیں ۔ میری کل کائنات ایک تلوار، ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے۔ آپ نے فرمایا: تم مرد کارو زار ہو اور تلوار تمہاری جنگی ضرورت کے لئے ہے، اونٹ بھی تمہاری زندگی کی ضرورتوں کا حصہ ہے اس کے ذریعہ تم اپنی معاشی زندگی کو آگے بڑھاسکتے ہو۔ اور اس کے ذریعہ اپنے اہل و عیال کے لئے روزی کی سکتے ہو۔ رہی زرہ تو اسی زرہ سے اپنی شادی کا انتظام کردو۔
امیرالمومنین (ع) نے زرہ فروخت کردی اور اس کی رقم رسولخدا (ص) کی خدمت میں پیش کردی۔ پیغمبر (ص) نے اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ بعض حصہ زندگی کے اسباب و لوازم کے لئے، بعض حصہ شادی میں عطر و غیرہ خریدنے کے لئے اور تیسرا حصہ "ام سلمی" کے پاس رکھوادیا تا کہ شادی کے وقت حضرت علی (ع) کو دیدیں کہ وہ اس رقم سے اپنے مہمانوں کی میزبانی کریں۔
رسولخدا(ص) نے مسجد میں مہاجر و انصار کو بلاکر ان کے سامنے علی (ع) اور فاطمہ (س) کا عقد پڑھ دیا۔ اس کے بعد حضرت علی (ع) نے اٹھ کر خطبہ پڑھا: رسولخدا (ص) نے فاطمہ سے میرا عقد کردیا ہے اور میری زرہ مہر کے عنوان سے قبول فرمائی ہے۔
اس واقعہ سے مندرجہ ذیل سبق ملتا ہے:
1۔ لڑکا رشتہ مانگنے جائے۔ 2۔ شادی بیاہ کو آسان سے آساں بنایا جائے۔ 3۔ لڑکی سے اجازت لی جائے اور اسے لڑکے کے بارے میں سب کچھ بتادیا جائے۔ 4۔ مہر کم سے کم رکھا جائے۔ 5۔ علم و معرفت، تہذیب و تمدن کے لحاظ سے کفو سے رشتہ کیا جائے۔ 6۔ شادی بیاہ میں کسی قسم کی زور زبردستی نہ کی جائے۔ 7۔ اسلامی آداب و رسوم کی اہمیت دی جائے۔ 8۔ لڑکی کی حد درجہ عظمت نمائی ہو۔ 9۔ اس مبارک موقع پر اسلامی حدود میں رہ کر جشن و سرور کی محفل سجائی جائے۔