اسلامی مدیریت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول، مدیر کا عوامی ہونا یا بالفاظ دیگر زندگی کے تمام پہلوؤں میں چاہے وہ سیاسی ہوں یا اجتماعی اس کا خدمت خلق کرنا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ عوامی ہونے کے لئے انسان کو ہوائے نفس اور حب دنیا سے پرہیز کرنا پڑتا ہے کہ جس کے بغیر انسان کبھی بھی عوامی نہیں بن سکتا ہے۔ جو لوگ نفس پرستی اور خاندانی تعصب کا شکار ہیں وہ عوام اور خود کو دھوکا دے رہے ہیں اور انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اپنے اوپر عوامی ہونے کا خول چڑھا رکھا ہے۔
آج کی دنیا میں جمہوریت کے تمام نظام، عوام اور جمہوریت کے نام پر صرف سرمایہ داروں اور یہودیوں کو مزید مضبوط کرنے والے ہیں یا پھر یوں کہیں کہ سرمایہ سالاری نے جمہوریت کا لباس پہن رکھا ہے۔
حضرت امام خمینی (رح) نہ فقط عوامی تھے بلکہ انہیں انسانیت کی خدمت کرنے سے عشق تھا اور وہ ہمیشہ خود کو عوام کا خادم ہی سمجھا کرتے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ کروڑوں انسانوں کے دلوں پر حکومت کیا کرتے تھے۔ اور لوگ ان کے عاشق تھے۔ آپ (رح) کا عوامی مقام اور عوام کے درمیان آپ کی مقبولیت کی پوری تاریخ میں مثال ہی نہیں ملتی۔ یکم فروری 1979 ء کے دن لوگوں کا امام (رح) کے استقبال کے لئے جمع ہونا اپنی مثال آپ ہے۔ اور اسی طرح آٹھ سال تک دفاع مقدس میں دشمن سے جنگ کرنے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے اور آخر پر آپ (رح) کے جنازے میں لوگوں کی شمولیت کی پوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے اور یہ ساری باتیں آپ (رح) کے عوامی ہونے کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔
جس طرح یہ مستضعف، مظلوم اور غریب لوگ، امام خمینی (رح) کے عاشق تھے اسی طرح امام (رح) بھی ان سے بے حد محبت کیا کرتے تھے۔ لہذا امام (رح) کی عوام سے محبت کے ضمن میں یہ واقعہ بھی آپ (رح) سے نقل کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا: میں ان مظلوم اور مستضعف لوگوں کے سامنے شرمندہ ہوں کیونکہ میں اس مدت میں ان کے لئے کچھ نہیں کرسکا، استکبار نے مہلت ہی نہ دی کہ میں نے جو ان وعدے کیے تھے ان پر عمل کرتا اور ان محروم لوگوں کے حق میں کوئی کام کرسکتا۔
میں پورے یقین اور اعتماد محکم کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ عصر حاضر میں، ملت ایران اور ان کے یہ کروڑوں کی تعداد میں اجتماعات، رسولخدا (ص) کے زمانے میں حجاز کے لوگوں سے امیرالمومنین علی (ع)، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے زمانے میں کوفہ اور عراق کے لوگوں سے بہتر ہیں لہذا اسلام کو اس بات پر فخر کرنا چاہیئے کہ ااس نے ایسے فرزندوں کی تربیت کی ہے اور ہمیں بھی اس بات پر فخر ہے کہ ہم ایسے زمانے میں اور ایسی ملت میں شامل ہیں۔ (وصیت نامہ امام ، ص 25-26)
امام نے اس سے اگلے جملے میں مسئولین کو عوام کے بارے میں وصیت اور تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
میں صدر مملکت، پارلیمنٹ کے اراکین اور دوسرے تمام مسئولین کو، جو اس ملک کا نظام چلانے میں شریک ہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اس ملت کے مقام اور منزلت کو پہچانیں اور ہمیشہ ان کے خدمتگزار رہیں! خصوصیا مستضعفین، محرومین اور مظلومین کہ جو میری آنکھوں کا نور اور ہمارے ہاں موجود تمام نعمتوں کے حقیقی وارث ہیں لہذا آپ مسئولین ہمیشہ یہ بات یاد رکھنا کہ جہوری اسلامی ان کی زحمات اور قربانیوں کا نتیجہ ہے اور اس کی بقا بھی انہی کی خدمت میں پنہاں ہے۔ پس کبھی بھی ان کے حق میں ایسی غفلت نہ کرنا کہ جس سے تمہارے اور ان کے درمیان فاصلے ایجاد ہوجائیں۔ لہذا ہر حال میں اور ہمیشہ ان کے ساتھ مل جل کر رہنا۔ (وصیت نامہ امام ، ص 25-26)