مورخہ 21/ شوال مطابق 14/ تیر ماہ روز قلم سے معروف ہے اور انجمن قلم ایران اور عمومی ثقافتی کابینہ کی منظوری پر جمہوری اسلامی ایران کی جنتری میں روز قلم سے مشہور ہے۔
روز قلم کا سابقہ
سرزمین ایران پر قلم کا بہت پرانا سابقہ ہے۔ صدیوں پہلے ایران باستان میں (13/ تیرماہ کو) ایران باستان کا بہت بڑا جشن منایا جاتا تھا جس کے مخصوص قوانین تھے اور ان میں سے ایک قلم کی پاسداری تھی۔ اس جشن کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس دن ایران کا پیشدادی بادشاہ ہوشنگ نے صاحبان قلم اور کاتبوں کو قانونی حیثیت دی اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ لوگوں نے جشن منایا اور وہ جشن عظمت قلم کے عنوان سے یاد رہ گیا۔ اس جشن کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ابوریحان بیرونی کی نوشتہ کی روشنی میں 13/ تیر ماہ، تیر یا عطارد ستارہ کا دن ہے اور چونکہ عطارد ستاروں کا کاتب ہے لہذا اس دن کو لکھنے والوں کے دن سے موسوم کیا جاسکتا هے۔
انقلاب کے بعد بھی محمد علی سپانلو جیسے مشہور شعراء اور مولفین و مصنفین نے بھی 13/تیر ماہ کو روز قلم اور صاحبان تالیف و تصنیف سے موسوم کرنے کی تجویز دی۔ یہاں تک 14/ تیر ماہ انجمن قلم کی جانب سے روز قلم کے عنوان سے موسوم ہوا۔ اس کے باوجود ابھی بھی لوگوں بلکہ صاحبان قلم اور اندیشہ کے درمیان روز قلم کے نام سے کوئی خاص معروف نہیں ہے۔
لکھنے کی تاریخ زیادہ سے زیادہ 20/ ہزار سال پرانی ہے اور تدوین شدہ تحریر نظام کو محدود کرنے سے تقریبا 6/ ہزار سال پہلے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ اعداد و ارقام علمی کاوش کرنے والوں کی طرف سے صرف اندازہ کے اعتبار سے ہیں۔ جبکہ مختلف معاشروں کی طرف سے تحریر اور زبان کی مدد کے بغیر ترقی ممکن نہیں تھی۔
لکھنے میں استعمال ہونے والے مواد پتھر، لکڑی، جانوروں کی کھال، درختوں کے پتھے، ہڈی، موم، ابریشم اور کاغذ کا نام لیا جاسکتا ہے۔
پوری تاریخ میں دو طرح سے لکھا جاتا تھا۔ ایک قسم سوئی اور چاقو و غیرہ جیسے آلات سے اور دوسری قسم ان آلات اور وسائل کو شامل ہے کہ پر کا قلم، سر کنڈا کا قلم اور بال کا قلم و غیرہ استعمال ہوتا تھا اور روشنائی کا استعمال کرکے لکھنے کے مادہ پر نقش ابھرتا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ پتھر یا لوہے پر لکھے خطوط کی نسخہ برداری منطقی طور پر آخر کار طبع کرنے پر تمام ہوتی۔
قلم کیا ہے؟
قلم، عقل و معرفت، انسانوں کے جذبات و خیالات کی زبان اور اس کے مالک کے نظریہ اور شخصیت کو بیان کرنے والا ہے۔ قلم انسانوں کی دوسری زبان ہے۔ قلم کے حدود، اس کی کیفیت اور پہچان اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے کہ بیان کیا جائے۔ 20/ ویں صدی کے آغاز میں کسی کو اس بارے میں شک و تردید نہیں رہ گئی تھی کہ قلم و کاغذ کو معلومات کی ذخیرہ سازی کا اہم ترین اور موثر ترین وسیلہ جانے؛ کیونکہ اس وقت انسانی معاشرہ اقتصادی اور فکری اعتبار سے کاغذ اور قلم پر تکیہ کرنے والا معاشرہ بن چکا تھا۔ لیکن اس نظریہ کی بنیاد کچھ مدت بعد لرزنے لگی اور کمپیوٹر کے آنے سے ٹیلیویژن اور معلومات کی تیزی بڑھتی ترقی اور گوناگوں مایکروفلم، مایکرو فش اور الیکٹرانک وسائل کے استعمال کاغذ و قلم کی بے رقیب فضیلت و برتری نے سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کی دعوت دی۔ جس طرح پوری تاریخ میں قلم کی ظاہری شکل بدل گئی ہے اسی طرح روز بروز ٹکنالوجی کے ساتھ ترقی کررہاہے۔ اگر چہ اب تک الکٹرانک کتابخانہ اور کاغذ و قلم کے بغیر کوئی ادارہ اور بغیر کتاب کے کوئی معاشرہ ظاہر نہیں ہوا ہے اور شاید کبھی ظاہر بھی نہ ہو؛ لیکن لکھنے کے مواد اور وسائل بنیاد سے تبدیل ہوگئی ہیں۔ قلم اور نوشتہ کے ظاہر میں یہ تبدیلی صاحبان قلم کی قیمت کو کم نہیں کرتی بلکہ ایک لحظہ میں منتقل کرنے کی وجہ سے یقینا قلم کی ذمہ داری کو 100/ برابر کردیتی ہے۔
خداوند عالم کا قرآن میں قلم کے نام سے قسم کھانا اس کی شرافت اور عظمت پر بولتا ثبوت ہے "قسم قلم کی اور جو لکھتے ہیں" یا دوسری جگہ "وہ ذات جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی"۔ زبان سے نکلی ہوئی بات فرار کر جاتی ہے لیکن قلم سے لکھی ہوئی چیز محفوظ اور باقی رہتی ہے۔ بیان اور سخن عام طور پر دقیق نہیں ہوتا۔ لکھے ہوئی مطالب عمیق اور فکری ہوتے ہیں۔
بہر صورت قلم کو زبان اور بیان اسی طرح اظہار بیان کی ہر چیز پر فضیلت اور برتری حاصل ہے۔ اس سے دنیا کا کوئی بھی انسان انکار نہیں کرسکتا کیونکہ علامہ طبرسی مرحوم اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
بیان دو طرح کا ہوتا ہے: زبان کا بیان، اور قلم کا بیان۔ زبان کا بیان زمانہ گذرنے کے ساتھ پرانا اور کہنہ ہوتا جاتا ہے اور نابود ہوجاتا ہے لیکن قلم کا بیان رہتی دنیا تک باقی اور محفوظ رہتا ہے۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
اگر دنیا میں قلم، خدا اور خلقِ خدا کی خاطر کام کرنے لگیں تو مشین گنیں خودبخود ختم ہوجائیں گی اور اگر خدا اور اس کی خلق کیلئے کام نہ کریں تو وہی مشین گنیں بھی بناتے ہیں ۔ جس قدر بشریت نے صحیح قلم سے فائدہ اٹھایا ہے کسی اور چیز سے نہیں اٹھایا اور جس قدر قلم سے اسے نقصان پہنچا ہے کسی اور چیز سے نہیں پہنچا۔