سید حسن خمینی

عالمی صلح کی خاطر عمومی ڈپلومیسی سے استفادہ ضروری

سید حسن خمینی نے عقلائے عالم کے ایک دوسرے سے رابطہ پر زور دیا اور ان کو شدت پسندی کے مقابلہ میں بہت بڑا موثر جانا

جماران نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) اور اکو ثقافتی ادارہ کا تعاون کرنے کے سلسلہ میں تفاہم نامہ پر دستخط کے پروگرام میں کہا: ہمارے پڑوسی ممالک کے درمیان اگر ثقافت کے بارے میں گفتگو ہمیشہ واجب تھی تو آج واجب تر ہے۔

یادگار امام اس بیان سے کہ عالمی ماحول امید کے خلاف ایک قسم کی جنگ کی جانب بڑھ رہاہے، تصریح کی کہ شاید اس سے پہلے کی دہائیوں میں کوئی فکر بھی نہیں کرتا تھا کہ دنیا میں دوبارہ ایک دوسری نوعیت سے تناو پیدا ہوجائے گا۔ لیکن شدت پسندی کا وجود کہ اسلامی معاشرہ میں داعش اور اس جیسے شدت پسندوں کا وجود بتا رہا ہے، اسی طرح ایک دوسری شدت پسندی کہ امریکہ کو پورے طور پر مسلط کرنے کے لئے آگے بڑھا رہی ہے اور ہمارے بعض پڑوسی ممالک میں ماجراجوئی دکھائی دے رهی ہے۔ اس ضرورت کو جنم دینے میں (خطیر رقم کی بھی پرواہ نهیں کرتا) کے بارے میں دنیا کے عقلا جتنا جلد ہوسکے آپس میں بیٹھ کر گفتگو کریں۔

انہوں نے تاکید کی کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد عقلائے عالم کا ایک دوسرے سے گفتگو کرنا کو ایک بنیادی ضرورت میں تبدیل کردیا۔ انہوں نے یاد دیہانی کی کہ اس وقت سارے لوگوں نے محسوس کیا کہ ایک دوسرے سے جدا ہونا باعث ہوا ہے کہ کچھ گروہ ممالک کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنادیں۔ اس گفت و شنید اور آمد و رفت کا نتیجہ ایک عالمی صلح قلبی پیدا ہونے کا باعث تھا کہ جنگ کو ایک تباہ کن موجود بتادیا اور بہت ہی اچھے آثار چھوڑے۔

سید حسن خمینی نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دنیا میں آج کے ماحول کو دیکھتے ہوئے دوسری عالمی جنگ کے بعد بہت سارے لوگ تیسری عالمی جنگ، نیوکلیئر اور دیگر جنگ و جدال کی امید کررہے ہیں۔ لیکن در حقیقت بات چیت کرنا، ہماہنگی اور عقلائے عالم کا ثقافتی تبادلہ ہر عالمی جنگ سے مانع ہوا۔ البتہ ان دہائیوں میں علاقائی جنگیں وجود میں آئیں، لیکن ممالک کے پاس موجود اسلحوں کے مدنظر زبردست اور دردناک حادثہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دس ممالک اکو کے ثقافتی ادارہ کے رکن ہیں۔ یہ ادارہ بہت ہی اہم وسعت اور ظرفیت کا حامل ہے کہ اس سے استفادہ کرنا چاہیئے اور ان دس ملکوں کے مفادات مشترکہ منافع کے قالب میں بیان ہوں۔

یادگار امام نے اکو کے بہت ہی اہم مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ یہ انجمن اب سے زیادہ پہجانی جائے اور فعالیت کرے۔ لہذا اس کا دفاتر کی شکل میں باہر آنا ضروری ہے اور معاشرہ کے اندر سرگرم ہو۔ سنما کے قالب میں جو کام بنیاد فارابی کرسکتی ہے ( کہ اس وقت کی بہت ہی قوی مشترکہ زبان ہے) اور ہنرمندوں کی ایک دوسرے سے رفت و آمد کی شکل میں انجام دیا جائے۔

انہوں نے تاکید کی کہ یقین جانیئے شدت پسندی کے مقابلہ میں سب سے بڑا موثر سبب جو ہر علاقہ کو اپنا بناسکتا ہے وہ عقلاء ہیں۔ عقلاء مقامی عالم یا سنما گر یا اسپورٹر کے قالب میں ہوسکتے ہیں۔

سید حسن خمینی نے تاکید کی کہ عمومی ڈپلومیسی پوٹینشل سے عالمی صلح خواہی کے لئے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یادگار امام نے اکو کے ثقافتی ادارہ کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا۔

اس پروگرام میں موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) کے جانشین ڈاکٹر حمید انصاری نے اپنی تقریر میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس تفاہم نامہ پر دستخط کیا اور اکو کے ثقافتی ادارہ کے پرائیوٹ ہونے کو اکو کے رکن ممالک میں کام کرنے کے لئے مناسب موقع جانا اور موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) اور اکو کے ثقافتی تمام شعبوں میں فعالیت کرنے کی صورت پر تاکید کی۔

اسی طرح اکو ثقافتی ادارہ کے سربراہ ڈاکٹر مظاہری نے اس ادارہ میں تخصصی جلسوں میں گفتگو کرتے ہوئے اور نشر و اشاعت کی طرف اشارہ کیا۔ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) ادارہ اور اکو (ECO) کے ثقافتی ادارہ کے بین الاقوامی تعاون کے تفاہم نامہ کے پروگرام میں حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محمد مقدم اور ڈاکٹر محمد مہدی مظاہری کے درمیان معاہدہ پر دستخط ہوئے۔

ای میل کریں