حضرت امام (رح)، اس بات کے معتقد تھے کہ طاغوت کو شکست دینے کے لئے عوام کو بیدار کرنا اور انہیں علم و آگاہی عطا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ لہذا آپ (رح) فرمایا کرتے تھے : قیام کو عوامی ہونا چاہیئے،اس لئے آپ نے ابتدا ہی سے اپنے قیام کو عوامی بنانے کی کوشش کی تھے۔
امام (رح) اپنی تشخیص کے مطابق، اس نتیجہ تک پہنچ چکے تھے کہ شاہ کا تختہ الٹنے کے لئے جتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں دے دیں گے۔ اس لئے انہوں نے قیدیں برداشت کی، ملک بدر ہونا قبول کرلیا، اپنے حقوق سے محروم ہونا قبول کرلیا اور اس کے ساتھ ساتھ جتنے بھی مظالم آپ پر ڈھائےگئے، آپ نے سب کو، صبر و تحمل سے برداشت کرتے رہے۔
آپ کی تشخیص، اس نوعیت کی تھی کہ آپ نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آپ، اپنے قیام کی ابتدا، لوگوں کو آگاہی اور حالات سے آشنا کرنے کے بعد کریں گے۔ لہذا آپ نے ایسا ہی کیا۔ اس کے برخلاف آپ جنگ اور قتل و غارت سے آلودہ قیام کے معتقد نہیں تھے۔
حضرت امام (رح) نے اپنے تمام فیصلوں میں اور اسی طرح تمام امور کی انجام دہی میں عوامی آگاہی اور ان کے ساتھ صادقانہ طریقہ، اختیار کرنے کو اپنا مبنا قرار دیا۔
حضرت امام (رح) اس بات کے معتقد تھے کہ ہر حال میں، عوام کے ساتھ رہنا چاهیئے اور ان کے علم و آگاہی میں اضافہ کرتے رہنا چاہیئے تا کہ ان کی فکری سطح بلند ہو اور وہ اپنے نفع و نقصان کو سمجھ سکیں۔
عوام سے ہمدردی اور محبت کے ضمن میں جو جملات، آپ کے دوستان اور شاگردوں نے آپ (رح) سے نقل کئے ہیں وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امام (رح) کا سب سے زیادہ زور، اس بات پر تھا کہ قیام کو عوامی بنائیں، جیسا کہ آپ نے فرمایا: عوام ہم سے بہت آگے ہے، اور ہم ان سے بہت پیچھے ہیں۔ یا یہ کہ آپ (رح) نے مسئولین کو عوام کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: یہ لوگ تمہاری گردنوں پر حق رکھتے ہیں۔ اور اسی طرح (حال اور مستقبل میں، اس اسلامی انقلابی نظام میں وہی کامیاب ہوگا اور پیشرفت کرپائے گا کہ جو عوامی ہوگا۔ یہ صدام کی فوج والے، اتنے احمق ہیں کہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ ایسے حالات میں (عید کی رات کو) بمباری کرنا، ان سے لوگوں کی دشمنی کا سبب بن رہا ہے۔