آیات کی عرفانی تاویلات میں ایک بہت ہی اہم اصول، سیر وسلوک اور آداب تہذیب نفس کی کوشش اور آیات کو سالک کے حالات پر تطبیق دینا ہے۔ قلب میں صورت قرآن کا استقرار اور قرآن پر اس طرح توجہ دینا کہ گویا قرآن اپنے تمام وجود کے ساتھ سیر وسلوک کے پیغام کو مخاطب کے سامنے پیش کرتا ہے، ایک تاویلی اصول ہے۔
سالک کے نزدیک آیات قرآن ایسا خزانہ ہے کہ جس کے دروازے بعض اوقات کھل جاتے ہیں ۔ جب کھلتے ہیں تو اس میں کشش اور معنوی لذت ہوتی ہے؛ دقت کے ساتھ ان میں غور وفکر کرنا چاہیے۔
بنابریں ، جب اسے تطبیق دے تو ممکن ہے کہ انسان کا دل آمادگی رکھتا ہو اور یہ بھی ممکن ہے اس کے دل کو قفل لگ چکا ہو اور رسائی کا امکان نہ ہو: { أَفَلاٰ یَتَدَبرُونَ الْقُرآنَ أَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ أَقْفالُہا } (محمد ؐ؍۲۴) ’’وہ قرآن میں تدبر کیوں نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں ‘‘۔
لیکن بہرحال، عرفانی جہت رکھتا ہے اور تاویل اس سبب سے انجام پاتی ہے۔ غرض کلامی، فقہی اور فلسفی تاویل مقصود نہیں ۔ امام خمینی (رح)اس سلسلے میں کتاب امالی شیخ صدوق (رح)سے امیر المومنین (ع) سے منقول وصف متقین کے بارے میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھتے وقت اس طرح عمل کرتے ہیں :
{ اِذا مرّوا بآیۃ فیہا تخویف أصغوا الیہا مسامع قلوبہم وأبصارہم، فاقشعرّت منہا جلودہم ووجلت قلوبہم، فظنوا ان صہیل جہنم وزفیرہا وشہیقہا في اصول آذانہم؛واِذا مرّوا بآیۃ فیہا تشویق، رکنوا الیہا طمعاً وتطلعت أنفسہم الیہا شوقاً وظنّوا انہا نصب أعینہم }۔( امالی، ص ۴۵۸، مجلس ۸۴، ح ۲)
’’اہل تقویٰ جب ایسی آیات تک پہنچتے ہیں جن میں ڈرایا گیا ہوتا ہے تو ان کی آنکھیں اور دل کے کان کھل جاتے ہیں اور ان پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور ان کا دل خوف سے ڈھڑکنے لگتا ہے۔ جیسے وہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کی ہولناک آواز اور دھاڑنا اور بپھرنا ان کے کانوں کے سامنے ہے اور جب وہ شوق اور رحمت والی آیات تک پہنچتے ہیں تو ان پر اعتماد کرتے ہیں خوش ہوجاتے ہیں اور چشم خواہش اس کی طرف کھلتی ہے اور ان کا دل شوق سے ادھر پرواز کرتا ہے گویا کہ وہ وعدے اس وقت پورے ہوچکے ہیں ‘‘۔(شرح چہل حدیث، ص ۵۰۰)
اہل تقویٰ کا یہ زاویہ نگاہ آیات پر نظر ڈالنے، حالات کا مرقع کھینچنے اور مقامات کو مجسم کرنے کی بنیاد ہے۔ اب اگر قرآن ابتداء سے اختتام تک اس ہدف کے ساتھ پڑھا جائے اس کے پیغامات کو اس طرح بیان کیا جائے تو وہی چیز حاصل ہوتی ہے جو عرفاء تاویل میں انجام دیتے ہیں اور معین مقصد سے پیغام قرآن کو حاصل کرتے ہیں ۔ اس علت کی بنا پر ان کے استنباط کردہ مطالب دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں یہاں تک کہ امام خمینی(رح)کے مطابق اس کے اعضاء وجوارح اور قویٰ میں سے ہر ایک آیت الٰہی ہوجاتا ہے۔ شاید الٰہی خطابات کے جزوات اور جذبات اسے اس طرح بے قرار کردیں کہ حقیقت { اقرأ واصعد } کو اسی عالم میں دیکھے اور کلام کو بلا واسطہ اس کے متکلم سے سنے۔
اس اسلوب کا دوسرا نمونہ کہ تاویل کی حقیقت اور مبنی وضاحت کے ساتھ بیان ہوتا ہے، امام خمینی (رح)کے کلام میں دکھائی دیتا ہے:
’’سالک الی اﷲ کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو قرآن مجید کے حضور پیش کرے اور جس طرح قرآن حدیث کی درستگی ونادرستی، اعتبار وعدم اعتبار کی تشخیص کا معیار ہے اور اس کو کتاب خدا پر پیش کیا جاتا ہے جو کچھ قرآن کے مخالف ہو وہ باطل سمجھا جاتا ہے ویسے ہی سالک کی سعادت وبدبختی اور اس کی استقامت وکجی کا معیار یہ ہے کہ اﷲ کی کتاب کے مطابق پورا اترے۔۔۔ چنانچہ رسول خدا(ص) کا اخلاق قرآن ہےپس اس کو لازمی طورپر اپنے اخلاق کو قرآن کے مطابق کرنا ہوگا تاکہ وہ ولی کامل کے خلق کے مطابق ہوجائے اور جو اخلاق کتاب خدا کے مخالف ہو وہ باطل ہے اور اسی طرح اس سالک کیلئے ضروری ہے کہ اپنے معارف، احوال قلوب اور ظاہری وباطنی اعمال کو کتاب خدا پر تطبیق دے اور اس پر پیش کرے تاکہ حقیقت قرآن کے ساتھ وجود حاصل کرے اور قرآن اس کی باطنی صورت بن جائے‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۲۰۸)