وقت کے ساتھ ساتھ، اہدافِ کربلا [ظالم کےخلاف آواز اٹھاؤ، مظلوم کی آواز پر لبیک کہو] کی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اکیسویں صدی کی ایک دردناک حقیقت یہ ہےکہ اس صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے مختلف وسائل موجود ہونے کے باوجود اہدافِ کربلا اور پیغامِ کربلا کی اس طرح سے ترویج و اشاعت نہیں کی گئی جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔
عالم اسلام کی اس سستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یزیدیت کی کوکھ سے جنم لینے والی ناصبیّت نے دین اسلام کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ناصبی اپنے اوپر اسلام کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے، یزید کو "رضی اللہ" اور امام حسین(ع) کو نعوذ باللہ "باغی" کہا جانے لگا!!
ایک سروئے کے مطابق، اس صدی میں سینکڑوں سادہ لوح مسلمان ناصبیوں کی فکری تحریک سے متاثر ہوئے اور جو لوگ ناصبیّت کے جال میں براہ راست نہیں آئے، ناصبیّت نے ان کے سامنے کربلا کو اس طرح مسخ کرکے پیش کیا کہ وہ لوگ طالبان کو امام حسین(ع) کا حقیقی وارث سمجھنے لگے اور اس موضوع پر مقالے اور کالم چھاپنے لگے؛ گویا جو زہر رشدی کے قلم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے خلاف اگلا تھا وہی نواسہ رسول (ص) کے خلاف اگلا جانے لگا۔
پوری دنیا میں خصوصاً عراق، افغانستان، سعودی عرب، ہندوستان اور پاکستان میں ایسے تجزیہ نگار، مبصرین اور صحافی حضرات جنہوں نے کبھی کربلا کے بارے میں تحقیق ہی نہیں کی تھی، انہیں ناصبیّت نے غیر مصدقہ تحریری مواد اور فرضی معلومات فراہم کرکے اپنے حق میں استعمال کیا، ٹی وی چینلز سے کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی کھلم کھلا، یزید کی تعریف اور امام حسین(ع) پر تنقید کی جانے لگی!! اس صورتحال پر مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا سنّی وہ مجموعی طورپر اس بات سے غافل تھےکہ انہیں ناصبی نیا اسلام سکھا رہے ہیں۔
آج کے دور میں اگر کوئی مبصّر امام حسین (ع) پر تنقید کرتا ہے، کوئی چینل یزید کی تعریف کرتا ہے، کوئی صحافی طالبان کو امام حسین (ع) کا وارث قرار دیتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہےکہ لوگوں تک نامِ حسین(ع) تو پہنچا ہے پیغامِ حسین (ع) نہیں پہنچا۔
اب یہ ذمہ داری ہے ان تمام مسلمانوں کی وہ خواہ شیعہ ہوں یا سنّی کہ وہ ناصبیّت کو بے نقاب کرنے کےلئے پیغام کربلا کو عام کریں۔ تحریکِ کربلا پر لکھیں، کربلا کے بارے میں کتابیں پڑھیں، تنہائی کے لمحات میں کربلائی سوچیں، اپنی محافل میں کربلا کو موضوع بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو مقاصد کربلا سے ہم آہنگ کریں؛ بقول شاعر انقلاب:
اے دوستو! فرات کے پانی کا واسطہ، آلِ نبی کی تشنہ دہانی کا واسطہ، شبیر کے لہو کی روانی کا واسطہ، اکبر کی ناتمام جوانی کا واسطہ، بڑھتی ہوئی جوان امنگوں سے کام لو ...
ہاں تھام لو حسین (ع) کے دامن کو تھام لو، آئین کشمکش سے ہے دنیا کی زیب و زین ہر گام اک "بدر" ہو ہر سانس اک "حنین" بڑھتے رہو یونہی پئے تسخیر مشرقین سینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ "یا حسین" تم حیدری ہو سینہ اژدر کو پھاڑ دو اس خیبرِ جدید کا در بھی اکھاڑ دو ...
آج اسلامی دنیا میں اہدافِ کربلا کے گم ہوجانے کا اہم سبب وہ دانشمند، خطباء اور ادباء ہیں جنہیں حسین ابن علی (ع) کی چوکھٹ سے علم کا رزق، افکار کا نور، قلم کی بلاغت، زبان کی فصاحت اور بیان کی طاقت تو مل جاتی ہے لیکن وہ پیغامِ کربلا کو عوام تک نہیں پہنچاتے۔
اسی طرح وہ لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جو پورا سال حصولِ علم کےلئے مدینة العلم اور باب العلم کا دامن تو تھامے رکھتے ہیں لیکن اپنے علم کو تبلیغ کے ذریعے منتقل نہیں کرتے۔
اگر تحریک کربلا کو اس کی آب و تاب، جمال و جلال، عشق و عرفان اور خون و پیغام کے ساتھ بیان کیا جاتا تو دنیا کا کوئی بھی مسلمان ناصبیوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوتا اور دنیا کا ہر منصف مزاج انسان جب طالبان اور کربلا کا موازنہ سنتا تو بے ساختہ اس کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوجاتے کہ طالبان کا کربلا کے ساتھ کوئی ربط اور کوئی تعلق نہیں ...
اس لئےکہ کربلا تو وہ ہے، جس کے سجدہ گزاروں پر عرش والے بھی ناز کرتے ہیں، جس نے دین ِ اسلام کو لازوال کردیا، جس نے اسلام کو حیاتِ نو بخش دی، جس نے شریعت کو لازوال کردیا، جس نے سنّت کو زندہ کردیا، جس کے ذکر نے میر انیس کو بادشاہوں سے بے نیاز کردیا، جس کے تخیّل نے مرزا دبیر کو معیار فصاحت بنا دیا، جس کی تجلّی نے اقبال کو شاعرِ مشرق بنا دیا، جس کی معرفت نے قم کو مرکزِ انقلاب بنا دیا، جس کے فیض نے محمد حسین آزاد کو نام بھی اور احترام بھی عطا کیا، جس کے حسن و جمال نے شعراء کو جذب کرلیا، جس کی روانی نے خطباء کو مسحور کردیا، جس کی پیاس نے دو عالم کو دنگ کردیا، جس کے علم کا پھریرا آفاقِ عالم پر چھایا ہوا ہے اور جس کے کرم کی سلسبیل سے قیامت تک کی رہتی دنیا سیراب ہوتی رہےگی...
کربلا تو وہ ہے، جس کا امیر اگر اپنے نانا کی آغوش میں ہو تو شہکارِ رسالت ہے، اگر اپنے باپ کے کندھوں پر ہو تو فخرِ ولایت ہے، اگر آغوشِ مادر میں ہو تو نگینِ طہارت ہے ...
کربلا تو وہ ہے، جس کے امیر نے نوکِ نیزہ پر قرآن کی تلاوت کرکے آلِ محمد (ع) کی فضیلت و عظمت کا سکّہ جما دیا، جس کے علمدار نے یزیدیت اور ناصبیّت کو رسوا کردیا، جس کے نونہالوں کی تشنگی نے عالمین کو رلا دیا ... بھلا کیا ربط ہے کربلا کا طالبان سے ...!!
یہ ہمارے واعظین، خطباء، ادباء اور صاحبانِ قلم و فکر کی ذمہ داری ہےکہ وہ مصلحتوں کے مورچوں سے نکل کر اور حالات کے زِندان کو توڑ کر کربلا پر تحقیق کریں، کربلا لکھیں، کربلا کربلائی پڑھیں، کربلا خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں ... اس لئےکہ وقت کے ساتھ ساتھ، جیسے جیسے دنیا کے علم و شعور میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اہدافِ کربلا کی تبلیغ اور پیغامِ کربلا کو عملی کرنے کی ذمہ داری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
حوالہ: جامعه روحانیت بلتستان / http://www.jrbpk.com