امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا شمار ان موضوعات میں سے ہے جن کا تصور ہی تصدیق کا باعث ہوتا ہے اور اس کے لئے دلیل و برہان کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہ جاتی۔ انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی (رح) کی نظر میں قرآن کریم میں سماجی مسائل سے متعلق 99/ فیصد آیات ہیں لیکن عبادات سے متعلق 1/ فیصد سے بھی کم ہیں۔
آپ نے ایران میں خصوصا عدالتی اور دیوانی شعبوں میں رائج بیوروکریسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سیاست کے دین سے جدائی کے نظریہ کی ترویج کے بارے میں سامراجی کردار کی کارفرمائیاں بتائیں۔ آپ کی نظر میں عصر غیبت میں حکمرانوں کے حکمرانی کرنے کی اہم شرط قانون کا عالم اور عادل ہونا جانا ہے، اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دو خصوصیات کا حامل ہو اور حکومت قائم کرنے کے لئے قیام کرے تو معاشرہ کا نظام چلانے اور اس کی نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لئے اس کو وہی ولایت حاصل ہوگی جو رسولخدا (ص) اور آپ کے بعد آپ کے معصوم (ع) جانشینوں اور اوصیاء کو حاصل تھی۔
لہذا ایسی صورت میں ہر فرد پر اس کی اطاعت ضروری اور واجب ہے۔ آپ حکومت کو بلند و بالا مقاصد اور انسانی اقدار کے تحفظ کا بہترین ذریعہ جانتے ہیں۔ آپ نے احادیث سے ولایت فقیہ کا اثبات کیا ہے اور انبیاء کی بعثت کے اغراض و مقاصد اور ان کے فرائض کو بیان کرتے ہوئے قوانین کے نفاذ، لشکر کی کمانڈری، معاشرہ کا نظم و نسق چلانے، ملک کے دفاع اور عدل و انصاف قائم کرنے کی حوالہ سے فقہاء کو رسولخدا (ص) کے نزدیک قابل وثوق اور لائق اعتماد جانتی ہیں نیز عدلیہ کے عہدہ پر فائز ہونے کو فقیہ عادل کا حق قرار دیتے ہیں اور جدید معاشرتی حالات کے بارے میں بھی فقیہ کی طرف رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔
آپ نے اسلامی انقلاب او ر حکومت کے قیام کے بارے میں کوششوں کو بیان کرتے ہوئے تعلیم اور تبلیغ کو دو اہم اور بنیادی ذمہ داریاں بتائی ہیں۔ آپ حقیقی اسلام کا تعارف کرانے کو دینی مدارس کی اصلاح ضروری سمجھتے ہیں۔ مقصد یہ ہے نصاب، تبلیغ، اور تعلیم کی پالیسی کو پایہ تکمیل تک پہونچایا جائے، سامراج کی فکری اور اخلاقی یادگاروں کو طاق نسیاں بنادیا جائے اور خود کو پاکیزہ ظاہر کرنے والوں کی اصلاح، دینی تعلیمی مراکز کی تطہیر، درباری علماء اور مولویوں کی شناسائی کرکے ان سے دوری اختیار کی جائے اور ظالم و جابر حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔
امام خمینی (رح) کی نظر میں ولایت فقیہ دین اور سیاست کے باہمی ربط اور اسلامی حکومت کے بارے میں بیان کئے گئے مطابق سے یہ نکتہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ سیاسی فکر کے میدان میں امام خمینی (رح) کا بیان اچھوتا اور نیا ہے، کیونکہ علماء اور فقہاء اب تک حکومت کے قیام کے مسئلہ میں شکوک اور شبہات کا شکار تھے۔ لیکن آپ نے حکومت قائم کرکے دین اور سیاست کے اٹوٹ رابطہ کو ثابت کردیا اور اس کا عملی ثبوت پیش کیا۔
جہاں اس کے باہمی ربط پر نقلی دلائل موجود ہیں وهیں پر آپ نے عقلی دلائل بھی دیئے ہیں:
اسلامی احکام کی ماہیت سیاسی ہے۔ اسلام کے تمام احکام خواہ وہ عبادی ہوں یا غیر عبادی، سیاسی اور سماجی پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی از منکر، معاشرہ کی اصلاح، سماجی عدالت کی برقراری اور معاشرتی برائیوں، گمراہوں اور کجرویوں کے ہمہ گیر اور وسیع مقابلہ کے لئے طاقت، حکومت اور حاکمیت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ عبادی سیاسی اور سماجی احکام کے نفاذ اور اس پر عمل در آمد کرانی کے لئے طاقت، حکومت اور حاکمیت ضروری اور واجب ہےاور اس کی بغیر اس کا تحقق ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔