روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کی آخری شب مخصوص خصوصیات کی حامل ہے، جیسا کہ محمد بن مسلم کہتے ہیں: میں نے ابو جعفر امام محمد باقر (ع) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: یقینا خداوند عالم کے کچھ فرشتے هیں جو روزہ داروں پر مامور ہیں ان کے لئے ماہ مبارک رمضان میں ہر دن استغفار کرتے هیں اور یہ سلسلہ آخر ماہ تک جاری رہتا ہے اور ہر شب افطار کے وقت انہیں آواز دے کر کہتے ہیں: اے خدا کے بندو! تمہیں خوشخبری ہو کہ در حقیقت تم لوگ کچھ دیر بھوکے رہے اور بہت جلد ہی زیادہ سیر ہوجاؤگے، تم لوگ کو مبارک ہو اور تمہارے درمیان برکت ہے اور جب ماہ رمضان کی آخری شب آجاتی ہے تو وہ لوگ انہیں (روزہ داروں) کو آواز دیتے هیں: اے خدا کے بندو! تمہیں مبارک ہو کہ خدا نے تمہارے گناہوں کو بخش دیا اور تمہاری توبہ قبول کی لہذا اب اس کے بارے میں حواس جمع ہو جو تم سے دوبارہ سرزد ہوگا۔(بحار الانوار، ج ۹۶، ص ۳۶۱)
اسی طرح جابر کی روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ جب ماہ رمضان کی آخر شب آجاتی ہے تو خداوند غفار و رحیم سب کو بخش دیتا ہے۔ (بحار الانوار، ج ۹۶، ص ۳۶۵)
یا ابن فضال کی روایت سے اس طرح واضح ہوتا ہے کہ «حقیقت میں بد نصیب وہ ہے جس کے گناہ اس ماہ کے تمام ہونے پر بخشے نہ جائیں اور جس وقت اللہ کے نیک اور صالح بندے خدا کا انعام پایئں اس وقت وہ خسارہ اٹھانے والا ہو۔»
نیز یہ بھی گذر چکا ہے کہ خداوند عالم اس ماہ کی آخری شب میں آتش جہنم سے اتنی تعداد میں آزاد کرتا ہے جتنی اس ماہ کی تمام شبوں میں آزاد کرتا ہے۔ سید کی رویات بھی انہی فضیلتوں کو واضح کررہی ہے کہ صاحبان نظر کے لئے آخر ماہ کے خصوصیات روشن ہوجائیں گے۔اس روایت میں اس طرح ذکر ہوا ہے:
جب ۳۰/ دن تمام ہوتا ہے تو خداوند عالم ہر گذشتہ روز کے مقابلہ میں هزار شہید اور ہزار صدیق کا ثواب لکھتا ہے اور خداوند تمہارے لئے ۵۰/ سال کی عبادت مقرر کردی ہے اور ہر روز کے بدلہ دو ہزار روزہ لکھتا ہے۔ اور دریا نیل جو کچھ اگاتی ہے اس کی تعداد کے بقدر درجہ بڑھاتا ہے، آتش سے نجات، پل صراط سے گذرنے کا پروانہ اور تمہارے عذاب سے امان لکھتا ہے۔
پوشیدہ نہ رہے کہ ثواب کا یہ مرتبہ اس وقت تک واضح و روشن نهیں ہوگا جب تک شہید کا مرتبہ روشن نہ ہو لہذا مقام شہید کے بارے میں روایت بیان کررہے هیں تا کہ شهید کے بلند و بالا مقام کی معرفت حاصل ہو اور ماہ مبارک رمضان میں ۳۰/ دن روزہ رکھنے والا کا مرتبہ معلوم ہو۔
پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا کہ آپ (ص) نے فرمایا: قیامت کے دن تین گروہ شفاعت کریں گے اور خداوندعالم ان کی سفارش قبول کرے گا: انبیاء، علماء، شہداء۔
لہذا انسان اپنی قدر جانے، اپنے آپ کو پہچانے اور اپنی معرفت حاصل کرے کہ اسے کس طرح کی فضیلت و برتری، غنیمت اور برکتیں دی گئی ہیں اور توجہ کرے کہ وہ فیوضات و برکات مستحقین کے لئے تھیں اور اس سے ان لوگوں نے فیض اٹھایا ہے کہ ماہ رمضان جن کے ہاتھوں سے سالم رہا ہے اور ان کے لئے مبارک رہا ہے اور در حقیقت اس عظیم ماہ میں خدا کے مہمان رہے ہیں اور خداوند عظیم و کریم ان کا میزبان رہاہے۔ لہذا انسان اس کی وجہ سے مغرور نہ ہوجائے کہ میں بھی انهی میں سے ہوں اور خدا کی کرامت اور احترام میرے لئے بھی ہوگا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے، هر متنفس اپنے بارے میں بصیرت و آگاہی رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ کس حد تک خدا سے رابطہ رکھتا ہے، انسان کو غرور اور خود پسندی نہ آئے اور شیطان خدا کی بندہ کو اپنے دام میں گرفتار نه کرے۔