تضرع

ماہ رمضان اور ذکر الہی

راہ حق کا سالک اذکار شریفہ کے دوران ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے گریہ و زاری، تضرع و بیقراری کا اظہار کرے

عارف کامل، عالم با عمل حضرت آیت اللہ العظمی روح اللہ خمینی (رح) فرماتے ہیں:

روزہ خداوند سبحان کی مہمانی کا نام ہے۔ رمضان خدا کا مہینہ ہے اور خدا اپنے بندوں کو مہمان بناتا اور اپنے روحانی نعمتوں اور سعادتوں کے دسترخوان پر مہمان کرتا ہے۔ جہاں پر رنگ برنگ کی غذائیں اور لذیذ سے لذیذ مشروبات ہوتے ہیں وہیں پر انسانی خواہشات اور نفسانی تمایلات سے دوری کی بھی دعوت دی جاتی ہے۔ رمضان کے مبارک مہینہ میں اس کے آداب یعنی اس کے روحانی آداب اور شرائط کی رعایت کرتے ہوئے عمل کرنے پر توجہ مرکوز فرمائیں۔ صرف زبانی خدائی کا دعوی نہ ہو بلکہ آپ کے اعضاء و جوارح سے بھی ظاہر ہو کہ آپ ماہ رمضان کے آداب و شرائط کا لحاظ کرتے اور اس کا احترام کرتے ہوں اور حقیقی معنی میں دعا اور درخواست ہو اور ذکر الہی کا اہتمام ہو۔

نیز وہ ذکر بجالائے جس سے دلوں کو سکون و اطمینان نصیب ہو اور وہ ذکر «الا بذکر اللہ تطمئن القلوب» کا مصداق خدا کی حقیقی یاد ہو اسے ہر جگہ نظر میں رکھئیے اور یہ جانیئے کہ وہ ہماری ہر نقل و حرکت کو دیکھ رہا ہے لہذا ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جو اس کے غضب کا سبب ہو۔ ہر جگہ خدا کو نظر میں رکھیئے تا کہ گناہوں سے دور رہیں۔ اس ماہ مبارک میں خدا کو یاد کریں، اس کی خوشنودی اور رضا کا خیال رکھیں۔ ذکر الہی اور اس کی رحمتوں پر خدا کا شکر ادا کریں۔

راہ حق کا سالک اذکار شریفہ کے دوران ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے گریہ و زاری، تضرع و بیقراری کا اظہار کرے اور توجہ صرف اور صرف خدا کی طرف ہو اور اس کے سامنے ایک ذلیل، حقیر، مسکین، فقیر اور بے چارہ بندہ کی طرح ہو اور مسلسل اذکار و وظائف اور ادعیہ و اوراد کے ذریعہ اپنے باطن کو جلا بخشے اور ذکر حقیقی کو اپنے دل کے اندر جگہ دے اور اپنے ہاتھ، پاؤں، کان، زبان، دل و دماغ اور دیگر اعضائے ذکر الہی کے پیکر کا نمونہ ہو۔

ذاکر اور سالک کا دل ذکر الہی سے لبریز ہو اور اس کا جلوہ اس کے اعضاء و جوارح سے ظاہر ہو اور ذکر الہی کا حقیقی لباس میں ملبوس اور خدا سے دوری اور اس کی ناراضگی کا لباس اتار پھینکو تو تمہارا دل ربانی، رحمانی اور حق پرست بن جائے گا۔ خداوند عالم کی دل میں یاد رکھنے سے خوف دور ہوتا ہے۔ اس تابندہ اور روشن یاد سے ہر چیز کی اصلاح ہوجاتی ہے اور ساری کامیابیاں قدم چومتی ہیں۔

لہذا ہم اپنے محجوب دل کو یہ سمجھائیں کہ اعلی علیین سے لیکر اسفل السافلین تک پورا عالم وجود حق تعالی کا جلوہ ہے اور اس کی قبضہ قدرت میں ہے۔ خدا کا ذکر سے غیر اللہ سے لگائی کی امیدیں زائل ہوجاتی ہیں۔ انسانوں کی نجات اور دلوں کے سکون کا سبب دنیا سے دوری اور دنیاوی خواہشات سے اجتناب ہے اور یہ کیفیت انسان کے اندر دائمی ذکر سے حاصل ہوتی ہے۔

جو لوگ کسی بھی طریقہ سے دوسروں پر تفوق و برتری کے لئے کوشاں ہوتے ہیں وہ در حقیقت اپنی مشکلات بڑھاتے اور اپنے لئے مصیبتیں مول لیتے ہیں۔ وہ تفوق طلبی اور برتری کا جذبہ علم دین میں ہو یا دنیاوی شہرت، اقتدار، جاہ و حشم اور مال و منال کے میدان میں ہو۔ مادیات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگ ہی اس دنیا میں کامیاب و کامران ہیں جنہوں نے خود کو کسی حد تک ابلیس اور اس کے چیلوں کے دام سے دور رکھا ہے اور وہی اللہ کی جنت میں جانے کے حقدار ہیں۔

خدایا! ہم سب کو خدا کا سچا، مخلص اور دیندار بندہ بننے کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔

ای میل کریں