حسان بن ابی سنان نام شخص کا واقعہ ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے عابد، زاہد اور پارسا انسان تھے۔ وہ کم کھاتے اور کم پیتے اور 60/ سال تک جہاد بالنفس کرتے رہے لیکن ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے خواب میں دیکھا تو ان سے سوال کیا: آپ کا کیا حال ہے؟ سب خیریت تو ہے؟ انہوں نے جواب دیا: خیر تو ہے لیکن ایک سوئی جو میں نے کسی شخص سے ادھار لی تھی اور واپس نہیں کیا تھا، کی وجہ سے ابھی تک مجھے جنت میں جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔
یہی نہیں بلکہ برادری ایمانی یا کسی بھی مومن کا ظلم و جور کے ذریعہ مال کھانے کا انجام آتش دوزخ ہے۔ امام صادق (ع) نے ابو بصیر سے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی کا مال ظلم کرکے کھاتا ہے اور وہ اسے واپس نہیں کرتا وہ قیامت کے دن آتش جہنم کا ٹکڑا کھائے گا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ہر دہم کے بدلہ مدیون کی 600/ نماز کے لی جائے گی اور طلبگار کو دے دی جائے گی۔
احمد بن ابی الجوزی کہتے ہیں: میری آرزو تھی کہ عابد و زاہد ابو سلیمان کو دیکھوں۔ پھر ان کے انتقال کے بعد ایک سال بعد انھیں خواب میں دیکھا اور ان سے کہا خداوند عالم نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا، فرمایا: اے احمد! ایک غصبی خلال کی کھڑی کی وجہ سے ایک سال سے حساب دے رہا ہوں۔
امام صادق (ع) نے فرمایا: خداوند عالم نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ تین گروہ کو جنت میں جگہ نہیں دوں گا: 1۔ جو شخص خدا کا انکار کرے۔ 2۔ امام اور رہبر کو قبول نہ کرے۔ 3۔ جو شخص مسلمان کا حق روک لے۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
کوشش کریں کہ حقوق الناس کا بوجھ اپنی گردن پر لاد کر دنیا سے کوچ نہ کریں ورنہ مسئلہ بہت سنگین ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے۔ اس کے ساتھ انسان کا باہمی معاملہ انسانوں کے باہمی معاملات کی بہ نسبت بہت آسان ہے۔ میں حقوق الناس کے معاملے میں اور مشکلات میں گرفتار لوگوں کے ساتھ روابط کے معاملے میں میری ، آپ کی اور مومنین کی سنگین ذمہ داریوں کے حوالے سے اللہ کے حضور پناہ مانگتا ہوں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے حقوق اللہ سے مربوط گناہوں کو آسان سمجھنے لگیں۔ (صحیفہ امام، ج۱۶، ص۲۲۳)
آیات اور روایات اور سیرہ معصومین (ع) کی روشنی میں امانت کی ادائیگی نہ کرنا اور برادران ایمانی کا ظلم و جور کے عنوان سے مال کھانا آتش دوزخ کا حقدار ہونا اور جنت سے محروم ہونا ہے۔ کیونکہ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا بڑے بڑے علماء و افاضل، اپنے وقت کے بڑے سے بڑے عابد و زاہد اور خدا والے لوگوں کو برزخ میں کن مشکلات کا سامنا ہوا ہے۔ اور جب تک حق الناس کی کماحقہ ادائیگی نہیں ہوگئی، قبر کے عذاب، برزخ کی سختیوں سے نجات نہیں ملی اور جنت کے راہی نہ ہوسکے۔
لہذا دوستان عزیز و برادران گرامی! حواس جمع رکھیں اور حقوق الناس اور حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں اور اپنے اعمال و وظائف سے محتاط رہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جس سے لیا ہے اور جن شرائط کے ساتھ لیا ہے اور جس طرح لیا ہے اسی طرح وقت پر واپس کریں کیونکہ اگر واپس بھی کردیا لیکن وقت سے نہ ہو یا صحیح و سالم نہ ہو، یا پھر لڑائی جھگڑے اور دشمنی اور کدورت کے بعد ہو تو بھی انجام بھیانک ہے۔ ہمارے ہر قدم اٹھنے والا قلم کا حساب و کتاب ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے کسی پر ظلم کرنے، کسی کا مال چرانے یا کسی کے خلاف نا حق گواہی دینے کے لئے قدم اٹھایا ہو، یا کسی باطل کی طرفداری اور حمایت میں قلم اٹھایا ہو یا ہم نے اپنے افکار و خیالات سے کسی فاسد اور غلط انسان کی باطل اور فساد کی طرف رہنمائی کی ہو۔
خداوند عالم کی بارگاہ میں ہمارے سارے اعضاء، ہاتھ پاؤں آنکھ، کان، زبان سب مسئول اور جواب دہ ہوں گے۔ یہ معاملہ صرف دینا میں تمام نہیں ہوجاتا بلکہ دنیا میں جو بوتے ہیں اسے آخرت میں کاٹیں گے اگر ہم اللہ، رسول اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں آخرت کو آمادہ کرنے کے لئے دنیا میں اچھے اعمال بجا لانے ہوں گے، لوگوں کی ساتھ خیر و خیرات کرنی ہوگی اور کسی کا ساتھ دینے سے پہلے ہمیں ہزار بار سوچنا چاہیئے کہ کہیں ہمارا یہ اقدام خدا اور رسول (ص) کی مرضی کے خلاف تو نہیں ہے، اور ہمیں ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیئے اور ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
خدا ہم سب کو آخرت بنانے کی توفیق دے۔ آمین۔