مورخہ 26/ دی سن 1357 ش کو شاہ ایران چھوڑ کر مصر جانے پر مجبور ہوا۔ علم یہ تھا کہ اس کے قریبی ترین حامیوں اور آقاؤں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔
شاہ کی بیوی فرح دیبا کی زبانی اقرار اور شاہ کے ایران میں موجود ہونے اور اس کے ہمسفر ملک نکلنے کی داستان اس طرح ہے! کہتی ہے میرا اور محمد رضا کا اشک بھرا سفر 26/ دی ماہ کو ہوا۔ ایران کے داخلی امور میں امریکہ کی مداخلت اتنی زیادہ بڑھ چکی تھی کہ ہم کو بھی یہاں کے امور سے باخبر نہیں کرتے تھے مثلا جنرل رابرٹ ہایزر مدتوں سے ایران میں رہ کر فعالیت کررہا تھا اور ہم کو بالکل ہی خبر نہیں تھی۔ جب محمد رضا کو پته چلا کہ جنرل رابرٹ ہایزر تہران میں ہے تو بہت زیادہ مشکوک ہوا اور مجھ سے کہا: ہم لوگ بختیار کے توسط اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے ہی ایران کو ترک کردیں گے، جس دن بختیار پارلیمنٹ گیا تھا اس دن ہم لوگ ائیرپورٹ پر تھے اور پارلیمنٹ کی داستان ٹیلیفون سے سن رہے تھے۔
آخری دنوں میں شاہ کی بیوی فرح نے شاہ کو مقام سلطنت سے استعفاء دلانے اور اس کی جگہ پر مقام نیابت سپرد کرانے کی کوشش کی لیکن شاہ نے قبول نہیں کیا اور کہا کہ یہ کسی مشکل کو حل نہیں کرے گا۔ آخر کار شاہ نے 26/ دی 1357 ش فرار کرنے ہی کو ترجیح دیا، حکومتی گھرانے میں سے صرف فرح ہی رہ گئی تھی کہ آخر کار وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ ایران سے نکل گئی۔
فرح دیبا نے اپنی داستان اس طرح نقل کی ہے: محمد رضا شاہ وطن چھوڑنے پر مجبور تھا لیکن اس بات سے بہت زیادہ افسردہ اور غمگین تھا۔ ہم لوگوں نے 1/ بجے دن میں شاپور بختیار (صدر جمہوریہ) ڈاکٹر جواد سعید (شورای ملی کے رئیس) ڈاکٹر علی قلی اردلان (وزیر دربار) اور فوج کے اعلی عہدیدار اور ملک کی بلند ہستیوں کو مہر آباد ائیرپورٹ پر خداحافظ کر کے تہران کو ترک کردیا۔
آگے کہتی ہے: محمد رضا نے ہوائی جہاز کی سیڑھیوں کے نیچے نامہ نگاروں کو انٹرویو دیتے وقت کہا: میں چند دن آرام کرنے کے لئے مصر جارہا ہوں اور یہ اضافہ کیا کہ جس طرح میں نے حکومت قائم ہوتے کے وقت کہا تھ کہ کافی دنوں سے خستگی کا اظہار کررہا ہوں اور اب مجھے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے اور جب حکومت بن جائے گی اور مجھے سکون مل جائے گا تو سفر پر جاؤں گا اور اس سفر کا ابھی سے آغاز ہو رہا ہے، آج شورای ملی کمیٹی کی رای سے کہ سینٹ کے بعد دی گئی ہے امید کرتا ہوں کہ حکومت گذشتہ کی تلافی کرنے میں اور آئندہ کی قانون گذاری کرنے میں کامیاب ہوگی۔ اور ہم اس کام کے لئے کچھ دنوں تک تعاون اور اسد کلمہ کے معنی میں حسن وطن پرستی کے محتاج ہیں اور ہم پر ملک کی حافظت اور وطن پرستی کی بنیاد پر فریضہ کی ادائیگی کے سوا کوئی اور فریضہ نہیں ہے۔
فرح اپنی زندگی کی دوسری یادوں میں کہتی ہیں:
محمد رضا کو اس بات کا ندیشہ تھا کہ کہیں ہم لوگ بھی افغانستان حکومت کے سربراہ جنرل داوود خان کہ اپنے خاندان کے سارے ممبروں کے ساتھ پھانسی کی سزا کا مستحق ہوا؛ کی طرح نہ ہوجائیں۔ محمد رضا نے صحیح دور اندیشی کی بنیاد پر پہلے ہی اپنے اور میرے خاندان والوں کو ملک سے باہر بھیج دیا تھا۔ میرے بچے امریکہ میں تھے۔ محمد رضا کے گھرانے کے اکثر لوگ جز شمس اور اس کے شوہر کے سب امریکہ میں تھے اور ان کی جگہ پر امن تھی۔ لیکن میں اور محمد رضا مہینوں سے اس بات سے پریشان رہتے تھے کہ کہیں ہم لوگ انقلابیوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔