اتحاد و یک جہتی

دشمن سے مقابلے کی راہ میں جد و جہد کرنے والی قوتوں کے درمیان اتحاد

مشترکہ دشمن کی طرف توجہ اتحاد کی ضرورت کو دو چندان کر دیتی ہے

انقلاب اور جنگ کے دوران ان لوگوں  کو جو وطن پرستی اور حتی کہ اسلام پسندی کے دعوے کرتے ہوئے اختلاف اور احتجاجی فضا قائم کرنے کے درپے تھے امام خمینی(ره) مشترکہ دشمن کی طرف متوجہ کراتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی سے قبل مخالف سیاسی ڈھڑوں  سے ایک دوسرے سے جد اہو کر اپنے لئے علیحدہ جماعت اور گروہ انتخاب کرنے کی بجائے امت مسلمہ کے بحر بیکران سے ملحق ہونے کی اپیل کی جاتی تھی۔ دوسری عبارت میں  ان کے ساتھ اتحاد ملت کے دھارے سے ملنے کے بعد ممکن تھا نہ کہ اس سے پہلے،  اسی لئے انقلاب کی کامیابی سے پہلے ان کے بارے میں  موقف سے متعلق کئے جانے والے سوالات کا حضرت امام خمینی(ره)  کھل کر منفی جواب دیتے تھے۔  ذیل میں  ہم اس طرح کے ایک سوال و جواب کی مثال دیتے ہیں :

سوال : حضرت آیت اللہ ! کیا آپ مارکسسٹ عناصر کے ساتھ تعاون کے خواہاں  ہیں  یا ان کو اہمیت دیتے ہیں  ؟ اور کیا آپ کے تحریکی مقاصد اور مارکسسٹوں  کے درمیان کسی قسم کی ہم آہنگی ہے؟

جواب :   ہمارے اور ان کے مقاصد مختلف ہیں ، ہم اسلام اور توحید پر یقین رکھتے ہیں  جبکہ وہ ان دونوں  کے مخالف ہیں ۔ ہمارے احکام،  اسلامی ہیں  جبکہ وہ اسلام کو قبول ہی نہیں  کرتے ہیں  اور ہم نہ صرف ان کے ساتھ تعاون  کے خواہاں  نہیں  ہیں ، بلکہ نہ ہمارا ان کے ساتھ کوئی تعاون ہے اور نہ ہی رہے گا۔‘‘

بختیار حکومت کے عہدیداروں  اور خود بختیار سے ملاقات کے لئے امام خمینی(ره)  کی بنیادی شرط حکومتی عہدوں  سے استعفیٰ تھی، یعنی ان کے ساتھ چلنے کی شرط ان کے موقف میں  تبدیلی قرار دی گئی تھی۔ علما اور کالج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والوں  کے درمیان بنیادی اختلافات اور تضادات پائے جاتے تھے ان میں  سے بعض لوگ دوسرے طبقے پر الزامات لگاتے تھے یہاں  تک کہ اس سلسلے میں  کتابیں  بھی شائع کرتے تھے، علماء بعض دانشوروں  کی تکفیر کے لئے دینی مرجعیت اور فتوؤں  کا سہارا لیتے تھے حتی کہ وہ امام خمینی(ره)  کو بھی اس معرکے میں  ملوث کرنا چاہتے تھے۔ امام خمینی(ره)  نے نجف اشرف میں  خطاب کرتے ہوئے اس معاملے پر تفصیلی طور پر روشنی ڈالی اور مشترکہ دشمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس جھگڑے کو ختم کرنے کا اعلان کیا، اگرچہ ان دوطبقات کے درمیان اتحاد کے لئے کسی مشترکہ دشمن کا وجود ضروری نہیں  ہے لیکن مشترکہ دشمن کی طرف توجہ اتحاد کی ضرورت کو دو چندان کر دیتی ہے۔

ای میل کریں