اسلام ٹائمز کے مطابق، مجمع اہل بیت(ع) پاکستان (ایم اے پی) کی جنرل باڈی (مجلس عمومی) کا اہم اجلاس اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک بهر سے اراکین مجمع اہل بیت(ع) نے شرکت کی۔ اس موقع پر اجلاس کے ابتدائی گرما گرم سیشن میں مجمع اہل بیت(ع) پاکستان کا مجوزہ دستور العمل زیر بحث آیا، جسے چند ترامیم کے ساته پاس کیا گیا۔ اجلاس کے اختتامی سیشن میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سربراہ آیت اللہ شیخ محمد حسن اختری نے خطاب کیا:
ابتداً انقلاب اسلامی کی کامیابی کی سالگرہ کی مناسبت سے ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور تبریک بهی اس لحاظ سے کہ یہ انقلاب مراجع عظام کی رہبری خصوصاً امام خمینی(رہ) کی رہبری میں شروع ہوا، یہ اس لئے ذکر کرتا ہوں تاکہ حاضرین علماء متوجہ ہو جائیں کہ حرکت کا نتیجہ برآمد ہونے میں وقت لگتا ہے۔ صبر و استقامت درکار ہوتی ہے۔ تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ دور اندیشی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ہمیں اپنے آئندہ کے بارے میں سوچنا چاہیے اور آئندہ کو اپنے سامنے رکهنا چاہیے۔ اگر آپ علماء کرام چاہیے ہیں کہ مجمع اہل بیت(ع) پاکستان بنے، جو پاکستان کے لئے اہم بهی ہے، تو یاد رکهیں کہ یہ کام جلد ثمر آور اور نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔ یہ کام سخت محنت طلب ہے، وقت صرف کرنا ہوگا، جو شخص بهی مجمع اہل بیت(ع) کا حصہ بننا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ احساس حضور پیدا کرے، فعال ہو، ایسا نہیں کہ صرف نام ہو اور کام نہ ہو اور سال میں صرف ایک اجلاس کیا جائے ۔ ۔ ۔
مجمع اہل بیت(ع) کا اصل مقصد ہم آہنگی، مشاورت اور باہمی تعاون کا فروغ ہے۔ تمام شیعہ ادارے، حوزہ علمیہ، شخصیات اور تنظیمیں مجمع اہل بیت(ع) کی چهتری تلے آجائیں۔ ایسا کرنے سے ملک کے ہر شعبہ میں آپ کی نمائندگی ممکن ہوگی، پارلیمنٹ میں آپ کی آواز موجود ہوگی ۔ ۔ ۔
اگر امام خمینی(رہ) یہ سوچتے کہ میں اکیلا ہوں اور میرے پاس وسائل موجود نہیں ہیں، تو کچه بهی نہ ہو پاتا، امام خمینی(رہ) نے حوزہ علمیہ قم سے تحریک کا آغاز کیا۔ اس موقع پر مدرسہ فیضیہ پر حملہ ہوا، مراجع کی توہین کی گئی، آیت اللہ گلپائیگانی اسی مجلس میں تهے، اگر رک جاتے تو بات ختم ہو جاتی، لیکن امام نے اس واقعہ کو بنیاد قرار دیا اور اسے عاشورا سے متصل کیا۔
عاشورا کے دن امام خمینی(رہ) نے خطاب کیا تو انہیں زندان میں ڈال دیا گیا۔ ملک میں ہزاروں افراد کو شہید کیا گیا، امام رہا ہوگئے، اب امام نے اپنے خطاب میں شہنشاہ سے آگے بڑهتے ہوئے امریکا کو للکارا۔ امام خمینی(رہ) تنہا ڈٹ گئے، لیکن امام تنہا نہ تهے، امام راحل نے افراد کی تربیت کی تهی۔ امام خمینی(رہ) نے پیغام دیا کہ مدرسہ فیضیہ کے سانحہ کو ہائی لائٹ کیا جائے، اس موقع پر لوگوں کو زندانوں میں ڈالا گیا۔ امام خمینی(رہ) کو نجف بهیج دیا گیا، ملک بدر کر دیا گیا۔ شہنشاہ سمجها تها کہ امام خمینی(رہ) اور مراجع نجف کے درمیان اختلافات پیدا ہوں گے اور امام کی تحریک ختم ہو جائے گی۔ امام نے ملک بدری سے استفادہ کیا اور نجف سے علماء کو پیغام بهیجتے رہے۔ حکومت اسلامی کے موضوع پر امام خمینی(رہ) نے نجف میں درس شروع کیا۔ اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، دشمن امام کے پیغام کو محدود کرنا چاہتا تها، لیکن امام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچنے لگا۔