قمری سال کے مہینوں کے درمیان ایک مہینہ ماہ رمضان بھی ہے جو ایک خاص پاکیزگی، قداست اور مقام کا حامل ہے۔ جیسا کہ اس ماہ سے مخصوص دعاؤں میں ہم پڑھتے ہیں: «.... و ہذا شہر عظمتہ و کرمتہ و شرفتہ و فضلتہ علی الشہور ...» (اقبال الاعمال، ص 24)
اور یہ ماہ ایسا مہینہ ہے جسے تو نے اے پروردگار دیگر مہینوں پر عظمت، کرامت،شرافت اور فضیلت بخشی ہے۔
رسولخدا (ص) فرماتے ہیں: اگر کوئی اس ماہ میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے تو اس شخص کے مانند ہے جس نے ماہ رمضان کے علاوہ مہینوں میں پورا قرآن ختم کیا ہے۔ (امالی، صدوق، ص 93)
امام صادق (ع) ماہ مبارک رمضان کے بارے میں فرماتے ہیں: جو شخص بھی ماہ مبارک رمضان صدقہ دے تو خداوند عالم اس سے 70/ قسم کی بلاؤں کو دور کرتا ہے۔ (بحار الانوار، ج 93، ص 316)
حضرت علی (ع)، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو مومن ماه رمضان میں خدا کے لئے روزہ رکھے گا تو خدا اسے 7/ خصلتوں کا مالک بنادے گا، اس کے جسم میں جو بھی حرام ہوگا اسے پگھلا کر نکال دے گا، خدا کی رحمت سے نزدیک ہوجائے گا۔ وہ اپنے باپ حضرت آدم کی خطا کو ڈھانپ دے گا، خد اس کے لئے جان کنی کے وقت آسانی پیدا کرے گا، وہ روز قیامت کی بھوک اور پیاس سے محفوظ ہوگا۔ خدا اسے جنت کی لذیذ غذاؤں سے بہرہ مند کرے گا آخر کار خدا اسے آتش دوزخ سے نجات دے گا۔ (من لا یحضرہ الفقیہ، صدوق، ج 2، ص 73)
ماہ مبارک رمضان، عبودیت و بندگی، اللہ کی رحمت اور غفران کے علاوہ دوسری جہتوں سے بھی اہمیت کا حامل ہے:
ماہ رمضان، نزول قرآن کا مہینہ ہے۔
ماہ مبارک رمضان کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس با برکت ماہ میں انسانوں کی نجات اور ہدایت کے لئے پیغمبر (ص) کے قلب اطہر پر قرآن کا نزول ہوا ہے، جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں لوگوں کی رہنمائی، ہدایت کی نشانی اور حق و باطل کی علامت کے عنوان سے نازل ہوا ہے۔ (بقرہ/185) دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ہم نے قرآن کو مبارک شب میں نازل کیا ہے۔ (دخان)
پیغمبر اکرم (ص) نے جابر سے خطاب کرکے فرماتے ہیں: اے جابر! ماہ رمضان کے دن میں جو کوئی روزہ رکھے اور رات کے کچھ حصوں میں عبادت کرے اور اپنے شکم اور شرمگاہ کو حرام چیزوں سے محفوظ رکھے اور اپنی زبان کی حفاظت کرے تو اس کی مثال یہ ہے کہ جس طرح وہ اس ماہ سے نکل جاتا ہے اسی طرح اپنے گناہوں سے خارج ہوجائے گا۔ جابر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ حدیث بہترین اور عمدہ حدیث ہے۔ رسولخدا (ص) نے فرمایا: ہاں، لیکن اس کے شرائط کی رعایت بہت سخت ہے۔ (کافی، ج 4، ص 78)
ایک دوسری حدیث میں ہم ملاحظہ کرتے ہیں: رسولخدا(ص) کو خبر دی گئی کہ ایک عورت نے روزہ کی حالت میں اپنے خادم کو گالی دی ہے۔ رسول خدا (ص) نے اسے بلایا اور اس کے سامنے کھانا رکھ دیا۔ اس عورت نے کہا: میں روزہ ہوں۔ رسولخدا (ص) نے فرمایا: کیسی روزہ دار ہو کہ تم اپنی کنیز کو گالی دیتی ہے؟ روزہ صرف کھانے اور پینے سے پرہیز کا نام نہیں ہے بلکہ خداوند عالم ان دونوں کے علاوہ روزہ کو بے اثر بنانے والی باتوں اور کاموں کو بھی روزہ کے لئے مانع قرار دیا ہے۔ افسوس کہ روزہ دار بہت کم ہیں اور بھوکے رہنے والے کتنے زیادہ۔
ایک دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے: خداوند ارشاد فرماتا ہی: جو شخص اپنے اعضاء و جوارح کو حرام کاموں سے محفوظ نہ رکھے تو اسے کیا ضرورت ہے کہ میری وجہ سے کھانا اور پینا ترک کردے۔ (الفردوس، 5/242)
حضرت زہرا (س) فرماتی ہیں: اگر روزہ دار اپنی زبان، آنکھ اور کان، اعضاء و جوارح کو محفوظ نہ رکھے تو اس کا روزہ اسے کیا فائدہ دے گا۔ ماہ مبارک رمضان کے بارے میں ذکر شدہ احادیث اور روایت سے نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ کی بخشش و مغفرت اور رحمت سے فیضیاب ہونے اور ماہ مبارک رمضان میں اللہ کی مہمانی سے استفادہ کرنے کے لئے کھانے، پینے اور روزہ باطل کردینے والے امور سے اجتناب کرنے کے علاوہ دیگر امور کی بھی رعایت کرے تا کہ ماہ مبارک رمضان کے واقعی روزہ داروں کے زمرہ میں شامل ہوسکے۔ اپنی آنکھ زبان، کان، ہاتھ، پاؤں اور تمام اعضاء و جوارح کو گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ رکھے اور شرعی حدود و معیاروں کی روشنی میں خدا کی عظیم نعمتوں سے استفادہ کرے۔
کیونکہ بہت ہی حسرت اور افسوس کا مقام ہوگا کہ شدید گرمی کے طولانی دنوں میں کھانے، پینے اور روزہ کو باطل کرنے والے امور سے تو خود کو محفوظ رکھے لیکن آنکھ سے گناہ کرے، شہوت انگیز مناظر کا مشاہدہ کرے، اسلامی حجاب کا رعایت نہ کرے، جھوٹ، تہمت، غیبت، موسیقی سننے، دوسروں کو اذیت پہونچانے، معاملات میں صادق نہ ہونے، ارباب رجوع سے نامناسب سلوک، بد نظمی اور عمومی نظم میں خلل اندازی کرنے سے پرہیز نہ کرے۔
اور ماہ مبارک رمضان میں عبادت اور روزہ داری کے قیمتی آثار کو بالکل نابود کردے اور کم سے کم کردے اور پیغمبر (ص) کے ارشاد: «کتنے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں بھوک اور پیاس کے کچھ کچھ ہاتھ نہیں آتا اور کتنے شب زندہ دار ہیں جنہیں رات کی عبادت سے بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا» کا مصداق بن جائے ۔ (امالی طوسی، ص 66)
امام خمینی رضوا ن اللہ تعالی علیہ رمضان سے متعلق خطبہ کے ایک جملہ کے بارے میں عرض کرتے ہیں کہ خداوند عالم نے آپ لوگوں کو اپنا مہمان بنایا ہے اور اس ماہ مبارک میں اپنے دسترخوان پر دعوت دی ہے۔ خلاصہ یہ کہ آپ حضرات اس مبارک مہینہ میں خداوند عالم کے مہمان ہیں اور خود خالق ہستی آپ کا میزبان ہے لہذا اس ماہ کی برکتوں سے استفادہ کریں اور خدا کا تقرب حاصل کریں۔ یہ انسان کے لئے خوش نصیبی اور عظیم سعادت ہے۔ اس پر ہمیں غور و فکر کرنا ہوگا کہ اس ضیافت کی حقیقت کیا ہےاور ہم نے اس مہمانی اور دعوت سے کس قدر فائدہ اٹھایا ہے۔ اہم اس ماہ میں، اللہ کی دی ہوئی سعادتوں اور برکتوں سے استفادہ کرنا اور گناہوں سے دوری اختیار کرنا اور واجبات پر عمل کرنا ہے۔