متعدد بار آپریشن کرنے سے ایسا ہوجاتا ہے لیکن بہت سارے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں: اضطرار ہو یا نہ جنسیت بدلنا جائز نہیں ہے۔ کچھ فقہاء کہتے ہیں کہ بطور مطلق جائز ہے خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو، کچھ فقہاء تفصیل کے ساتھ قائل ہوئے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ اگر ضرورت ہو تو جائز ہے اور اگر ضرورت نہ ہو تو جائز نہیں ہے۔
حضرت امام خمینی (رح) اسے جائز جانتے ہیں۔ خواہ ضرورت ہو یا نہ۔ فقہ امامیہ میں ایک بحث ہے کہ ہر چیز کی اساس حرام ہے مگر یہ کہ چیز کو حرام کرنا چاہوں تو ایک خاص دستور العمل ہونا چاہئیے کہ یہ عمل حرام ہے ورنہ اگر کوئی دلیل نہ ہو تو اسے حرام نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ ہر چیز کی اصل حلال ہے۔
لیکن بعض فقہا عورت کو مرد اور مرد کو عورت بنانے کو خداوند عالم کی خلقت میں مداخلت جانتے ہیں اور تصریح کرتے ہیں کہ خدا کی خلقت میں مداخلت جائز نہیں ہے۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر یہ مداخلت ضرورت رکھتی ہو تو جائز ہے۔ قاعدہ کلی کی روشنی میں اگر کوئی چیز ضرورت کی حد کو پہونچ جائے تو قانونی ممنوعیت جواز میں بدل جائے گی۔ اس قانون کے مقابلہ میں ایک اصل اور قانون ہے یعنی چیزیں ہیں کہ ضرورت نہ رکھتی ہوں تو اس میں اشکال ہے۔ حضرت امام خمینی (رح) اور خود ناچیز بھی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ کام جائز ہے۔
میں نے اس کے جواز میں ایک تفصیلی مقالہ لکھا ہے جو متین جریدہ میں چھپا ہے۔ میرا استدلال یہ ہے کہ اصل اولی کی روشنی میں ہر چیز جائز ہے۔ اگر قانون گذار (خداوند عالم) نے کسی چیز کو حرام نہ کہا ہو تو ہمارے پاس اس کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
اس وقت قوانین میں بھی ہے کہ اساسی طور پر ہر چیز حلال ہے مگر یہ کہ قانون گذار نے اس سے منع کیا ہو۔ اگر قانون گذار نے کسی چیز کو منع نہ کیا ہو تو ہمیں اس پر حرمت کا حکم لگانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنس کا بدلنا کیا حقیقتا خدا کی خلقت میں مداخلت ہے؟ اس کا جواب منفی ہے جنس بدلنا خدا کی خلقت میں مداخلت نہیں ہے، جس طرح نارنگی کے درخت میں تبدیلی پیدا کردیتے ہیں تا کہ مسمی ہوجائے یہ کام خدا کی خلقت میں مداخلت نہیں ہے بالخصوص یہ کہ ہر کوئی ایسا نہیں کرسکتا بلکہ شرائط رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر اگر کسی مرد میں عورت کا عنصر زیادہ ہو یا کسی عورت میں مرد کا عنصر زیادہ ہو تو آپریشن کرکے فرد کو اس صورت میں کردیتے جو اس میں غالب ہوتی ہے اور یہ کام خدا کی خلقت میں مداخلت نہیں ہے کیونکہ صرف خدا ہی انسان کے جسم میں روح پھونک سکتا ہےاور یہ کام روح پھونکنا نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر خداوند متعال کے سوا کوئی بھی اس طاقت کی نہیں رکھتا کہ کسی فرد کو خلق کردے، یہ کام خلقت میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ فرد میں خصوصیات پائی جارہی ہیں کہ مردانہ خصوصیات، زنانہ خصوصیات پر غالب آتی ہیں اور ظاہرا اسی شکل میں آجاتی ہے جس کی خصوصیت زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک فرد عورت تھی اور زنانہ جسم رکھتی ہے لیکن آپریشن کے بعد مرد ہوجاتی ہے، بالخصوص یہ کہ یہ افراد پوشیدہ مردانہ آلت رکھتے ہیں یا برعکس۔
حضرت امام (رح) اس کام کے لئے جواز کے قائل ہیں۔ مخالفین اپنے دلائل پیش کریں۔ پہلی فرصت میں موضوع کو مکمل طور پر پہچاننا چاهیئے اس کے بعد مخالفت کریں۔ ہر فقیہ اس کام کے لئے اس کے ماہر سے رجوع کرے کیونکہ فرد کے پاس کافی علم نہیں ہے۔ بہت سارے امور فقیہ کے تخصص میں نہیں ہیں۔ بلکہ ایک فیزیولوجیسٹ اس امر میں رائے دے اور فقیہ کافی شناخت کے بعد حکم شرعی صادر کرے۔
بعض فقہاء کلی طور پر تغییر جنسیت کو حرام جانتے ہیں۔ در حقیقت موضوع کو اچھی طرح نہیں سمجھا ہے کیونکہ اگر کافی اور اچھی شناخت رکھتے ہوتے تو وہی فتوی دیتے جو حضرت امام (رح) نے دیا ہے۔ صراحت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ تغییر جنسیت خدا کی خلقت میں مداخلت نہیں ہے۔ زنانہ تقاضے مرد میں موجود ہوں تا کہ آپریشن کرکے عورت بنایا جاسکے۔
ہمیں حق نہیں ہے کہ جلد بازی میں ہر مسئلہ میں نظریہ دے کر اسے حرام کردیں۔ اس وقت جدید موضوعات پیش کئے جارہے ہیں کہ جس میں فقہاء کے نظریہ کی ضرورت ہے لہذا فقہاء کو سرعت کے ساتھ ایک خاص مورد میں موقف اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔ امکان ہے که فرد اپنے اعضاء کو فروخت کرنا چاہتا ہے یا یہ کہ کوئی عورت جس کے انڈے نہ بتے ہوں دوسری عورت کے انڈوں کے ذریعہ حاملہ ہونے کے لئے اپنے شوہر کے اسپرم کے مدد سے 14/ سیلز بنا کر اپنے رحم میں پرورش کرے۔ ایسا کرنے میں شرعا کوئی اشکال نہیں ہے۔لیکن اس مسئلہ کے محرمات کے بارے میں بہت سارے اقوال پیش کئے گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سارے احباب نے تقریبا 25/ سال پہلے اعلان کیا کہ یہ کام حرام ہے۔ لیکن میں نے اسی وقت تصریح کی کہ یہ جائز ہے۔ اور دوستوں سے اس کے بارے میں وضاحت کی درخواست کی، کیا اس سے محرم اور نامحرم کی ملاقات ہوجاتی ہے؟ اور جب ایسا کچھ نہیں ہوتا تو یہ کام حلال ہے۔ اس وقت بہت سارے فقہاء نے اس نظریہ کو مان لیا ہےکہ اس میں شرعا کوئی اشکال نہیں ہے۔ اگر چہ اس مورد میں زیادہ حقوق کے مباحث پیش آئیں گے۔ کہا جا سکتا ہےکہ تغییر جنسیت کے آپریشن میں مرد کا عورت اور عورت کا مرد ہونا فکر سے مرحلہ عمل میں آجاتا ہے۔ اور اس کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ حرام کا نہیں ہوتا، بنابراین حکم اولی ایک موضوع کے جواز کا حکم دیتا ہے، اس بنا پر حضرت امام (رح) نے تغییر جنسیت کے جواز کا حکم دیا ہے خواہ اضطرار ہو یا نہ ہو۔