اسرائیل، سعودی عرب

اسرائیل، سعودی عرب کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو حل کرنیکا خواہشمند ہے

ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او کے سابق مرکزی رہنما

اس وقت دنیا بھر میں حالات ایک نئی کروٹ لے رہے ہیں، اس سے کچھ عرصہ پہلے جب عالمی طاقتوں نے عراق اور شام میں داعش کو سپورٹ کیا، اسی طرح گذشتہ تین چار سالوں میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کو سخت ہزیمت اُٹھانی پڑی، اب داعش کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، اب ایک نئی چیز فلسطین کے حوالے سے شروع کی گئی ہے، آغاز میں تو اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا، نئی یہودی بستیوں کی تعمیر شروع کی، جس کے بعد امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا متنازع بیان دیا، یہ ایک تسلسل ہے جو امریکی اور استعماری طاقتوں کی ناکامیوں کی تاریخ ہے، یہ ان ناکامیوں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور روز بروز سخت نقصان اُٹھا رہے ہیں، ابھی آپ دیکھیں کہ اقوام متحدہ میں صرف مسلمانوں نے نہیں بلکہ چند ایک مسلم ممالک تو اسرائیل کو کور دینے کی پوزیشن میں تھے، لیکن اس کے باوجود دنیا کے تقریباً اکثر ممالک نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ہے، بشمول چائنہ، روس، برطانیہ، کینڈا، فرانس سب نے حمایت کی، اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تمام اراکین کی آراء ایک طرف تھی اور امریکہ ہٹ دھرمی پر اٹکا ہوا تھا، لیکن چونکہ اُسے ویٹو پاور حاصل تھی، جس کا وہ فائدہ اُٹھا گیا، سلامتی کونسل میں امریکی تنہائی اس کی شکست کے مترادف ہے، یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ اب اس دنیا کا مستقبل امریکہ کے ہاتھ میں نہیں رہا بلکہ طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔

عالمی سیاست کا ایک واضح اُصول ہے کہ اپنے کیمپ کو مضبوط کرنے کے لئے مختلف چینلز استعمال کئے جاتے ہیں، ہم نے دیکھا کہ ترکی امریکہ اور اسرائیل کے معاملے میں اُس طرح ان کے ساتھ نہیں کھڑا، اسی طرح فلسطین کے معاملے میں قطر بھی امریکہ و اسرائیل کے ساتھ نہیں کھڑا، جس کے بعد امریکہ و اسرائیل اس وقت کچھ عرب ممالک کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے، مسئلہ فلسطین کو جو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ اسرائیل چاہتا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو صرف عربوں کا مسئلہ بنا دیا جائے، لیکن امام خمینی کی بصیرت اور قیادت نے اس مسئلہ کو عربوں سے نکال کر اُمت مسلمہ کا مسئلہ بنا دیا، جس کی سب سے بڑی دلیل جمعۃ الوداع کے موقع پر یوم القدس کا منانا ہے، آج یوم القدس دنیا کے بہت زیادہ ممالک میں منایا جاتا ہے، اب ایک بار پھر ہمیں اس طرح کی آواز سنائی دے رہی ہے، جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو عربوں کو اسرائیل کے ساتھ بیٹھ کر حل کر لینا چاہیے، اس کا کوئی راہ حل نکالنا چاہیے، یہ دراصل وہی اسرائیل کی زبان تھی جو محمد بن سلمان بول رہے تھے، اس کے بعد بحرینی حکومت کی جانب سے سرکاری وفد کا اسرائیل کا دورہ کرنا، اسی سلسلے کی کڑی ہے، اس وقت اسرائیل اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے بیک ڈور چینلز اور دیگر مختلف چینلز استعمال کر رہا ہے، اسی طرح یہ بات بھی عیاں ہے کہ اس نازک موڑ پر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا دورہ سعودی عرب، یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سعودی عرب کا محمود عباس پر کتنا دبائو ہے، محمود عباس اور حماس کے درمیان جب مخاصمت رہی تو اُس وقت سعودی عرب نے محمود عباس کی حمایت کی تھی، اس وقت اسرائیل سعودی عرب کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کا خواہشمند ہے۔

بدقسمتی کے ساتھ دنیا میں مسلمان ممالک کو اس طرح کے حکمران ملے ہیں، جنہوں نے کبھی عالم اسلام اور مسلمانوں کے اہم ایشوز پر سخت گیر موقف اختیار نہیں کیا، اس حوالے سے مصر، بحرین اور سعودی عرب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، اس سے پہلے تیونس، لیبیا اور یمن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، لیکن ایک حقیقت ہے اور سماجیات کا قانون ہے کہ جب ایک آزاد انسان گھٹن محسوس کرتا ہے تو وہ کسی نہ کسی انداز اُسے ظاہر کرتا ہے، اسی طرح اگر فلسطین، انڈونیشیا اور الجزائر میں ان سعودی حکمرانوں کے خلاف احتجاج ہوئے ہیں تو وہاں کی عوام نے دیکھا کہ بجائے مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے وہ اسرائیل کی حمایت اور تعلقات بنا رہا ہے، جس کے باعث وہان کی عوام نے اپنے غصے اور جذبات کا اظہار کیا ہے، اس وقت پوری دنیا پر سعودی حکمرانوں کی حقیقت بڑی واضح ہوچکی ہے، ایسے تمام حکمران جو مسئلہ فلسطین کے لئے آواز بلند نہیں کر رہے، وہ بے نقاب ہوچکے ہیں۔



ای میل کریں