حضرت امام خمینی (رح) اپنی کتاب چہل حدیث میں، صحیح کافی شریف کی اس حدیث:
"و انما اراد بالزہد فی الدنیا لتفرغ قلوبہم الاخرة"
اور خصوصا اس حدیث کے پہلے حصے کے بارے میں کہ جہاں ارشاد ہوتا ہے : "انما اراد بالزہد...." کے ضمن میں فرماتے ہیں:
اس حدیث کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ زہد کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا دل اس دنیا سے آہستہ آہستہ منصرف ہوجائے اور اس کی توجہ اپنے معبود اصلی اور آخری ہدف کے حصول کی جانب ہوجائے، اور روح حدیث سے یه ظاہر ہوتا ہے کہ آخرت سے مراد نہایت رجوع ہے اور مطلق قول کے مطابق آخرت یہی ہے۔ پس دنیا میں زہدیہ ہے کہ انسان خلوص دل کے ساتھ حق تعالی کا مطیع اور غیر خدا سے مکمل طور پر بے پرواہ ہو۔ لہذا جو کوئی بھی غیر خدا سے امید رکھے گا اور خدا کے علاوہ کسی اور کو اپنے دل میں بیٹھائے گا، چاہے وہ دنیاوی امور میں ایسا کرے یا معنوی امور میں، وہ اہل دنیا ہے اور زاہد نہیں۔ لہذا یہ شخص آخرت میں بہشت بریں سے محروم رہے گا۔ اگر چہ اس کے پاس دوسرے بہت سارے معنوی کمالات اور مادی سہولیات ہی کیوں نہ ہوں۔( چہل حدیث، ص 327)
حضرت علی علیہ السلام سے متقین کی صفات کے ضمن میں ایک جملہ روایت کیا گیا ہے کہ جس میں آپ نے زہد کی حقیقت اور اولیای الہی کا اس پر اعتقاد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"عظم الخالق فی انفسہم فصغر مادونہ فی اعینہم۔" (نہج البلاغہ، خطبہ 245)
کائنات کا خالق ان کے دل و دماغ میں عظیم جبکہ غیر خدا ان کے نزدیک حقیر ہے۔ حضرت امام خمینی (رح) کی اس صفت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ " اللہ اکبر" کی حقیقت آپ (رح) کے دل میں تجلی پیدا کر چکی تھی اور اللہ تعالی کی عظمت نے آپ (رح) کے دل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا اس لئے جو کچھ بھی اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف تھا وہ سب آپ (رح) کے نزدیک پست اور حقیر تھا، حکومت، شہرت، اولاد کی محبت و غیرہ یہاں تک کہ آپ (رح) ذرہ برابر بھی مرضی خدا کے خلاف کام انجام دینے کو تیار نہ تھے۔ اس لئے جو کچھ خدا کی رضا سے ٹکراتا تھا، آپ (رح) اسے اپنے پاؤں تلے روند دیتےتھے۔
امام (رح) حکومت و سلطنت سے جو کہ سب سے زیادہ سیر الی اللہ کی راہ میں رکاوٹیں ہیں، کے بارے میں فرماتے ہیں:
نفس کا اپنے اختیار میں ہونا اور حکومت و سلطنت کا مل جانا، یہ ایک وسیلے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ اور اللہ والوں کو اگر یہ وسیلہ کار خیر اور عالی ترین اہداف تک نہ پہنچائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ (ولایت فقیہ، ص 44)