حرم کا راز توحید امم

حرم کا راز توحید امم

امام خمینی (رح): معاشرے کی تنظیم، الٰہی فرائض و ذمہ داریوں کی بجاآوری اور کائنات کی معرفت ہے۔

امام خمینی (رح): معاشرے کی تنظیم، الٰہی فرائض و ذمہ داریوں کی بجاآوری اور کائنات کی معرفت ہے۔

عرب کے سوز میں ساز عجم ہے // حرم کا راز توحید امم  ہے

تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب  // کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے ۔۔ علامہ اقبال

علامہ اقبال (رہ) کی شخصیت بیسویں صدی کی ایک ایسی عبقری اور کثیر الجہات شخصیت واقع ہوئی ہے جسے اپنے امتیازات کی بناء پر شاعر مشرق تسلیم کر لیا گیا ہے، جس نے جانگسل تعقل اور جانگداز فکر اور نظریاتی کشمکش کے اس عہد میں نہ صرف ایک حیات بخش اور فکر انگیز فضا میں سانس لینے کےلئے حالات پیدا کئے اور کہنہ اذکار رفتہ اور لغو مضامین و موضوعات کے گرد گردش کرنے سے اسے نجات دلائی بلکہ پورے مشرق میں خودی و خود اعتمادی عزت نفس جہاں بینی اور جہاں بانی کا ولولہ پیدا کیا۔ اقبال (رہ) نے نہ صرف مشرق کو اپنا کھویا ہوا وقار اور لٹی ہوئی آبرو دوبارہ حاصل کرنے کےلئے جھنجھوڑا بلکہ مغرب کے گمراہ کن تعقل اور فتنہ جو تجربہ و مشاہدہ کے سائنٹفک منہاج کو وحی الٰہی اور پیغمبرانہ اسوہ سے مستنیر کرکے انسانیت کےلئے فیض بخش اور حقیقی ارتقاء کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔ اقبالؒ نے نہ صرف شاعری کی دنیا میں ایک جدید شعور کا اظہار کیا بلکہ ایک ایسا شعور جو مغربی تہذیب اور صنعتی تمدن کی بنیادی خامیوں سے باخبر تھا بلکہ ایک ایسے ادراک سے روشناش کرایا جو ماضی، حال اور مستقبل تینوں پر محیط تھا۔

اقبالؒ ماضی کی تابناک شعاعوں سے حال کی تاریکیوں کو دور کرنا چاہتے تھے اور ایک ایسے طلوع ہونے والے آفتاب کی بشارت دے رہے تھے جو ایک نئی روحانی و اخلاقی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہوگا۔ اقبالؒ کے سینے میں جو اضطراب و تپش جو بے قراری اور آرِزو مندی تھی اس نے نہ صرف ان کو بیسویں صدی کے فکر و تعقل کے آشوب و ابتلا سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت عطا کی بلکہ انہوں نے پوری نسل کو مغرب کے مادی و ذہنی غلامی سے نجات حاصل کرنے پر کمر بستہ بنا کر کھڑا کر دیا اور ایک ایسا ولولہ عطا کیا جو برصغیر ہی نہیں ایشیا کے مختلف حصوں میں اسلامی نشاة ثانیہ یا نژاد نو کے ایک تابناک دور کا نقطہ آغاز بنا۔

اقبالؒ کی شخصیت کو فطرت نے اس نشاة نو کےلئے اور اس عہد کے سوئے ہوئے انسانوں کو جگانے کےلئے دل و دماغ کی بہترین صلاحیتوں سے مزین کیا تھا اور ان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ قدیم و جدید دونوں کا وہ سنگم تھے اور مشرق و مغرب دونوں کے علمی و فکری سرچشموں سے پوری طرح سیراب ہوئے تھے۔ خوش قسمتی سے ابتداء ہی میں انہیں مشرقی علوم اور اخلاقیات کے ماہرین کا قرب حاصل ہوا اور ایک ایسا خانوادہ ملا جس میں روح کو جسم پر اور اخلاق کو مادی اسباب پر فوقیت دی جاتی تھی۔

علامہ اقبالؒ نے مغرب کے ایک ایک قاہرانہ نظریہ اور جلال فلسفہ کی دھجیاں بکھیر دیں اور جس طرح کل کے سورج کے ہونے پر انہیں یقین تھا اسی طرح انہیں یقین تھا کہ مغرب اپنے بچھائے ہوئے دام تزویر میں خود الجھ جائےگا اور جس تمدن کو اس نے ترقی اور روشن خیالی کی علامت بنا کر ساری دنیا پر مسلط کیا ہے وہ فنا کے گھاٹ اتر جائےگا۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرےگی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنائےگا ناپائیدار ہوگا // (اقبالؒ)

علامہ اقبال علیہ الرحمہ کی عالم اسلام کے حوالے سے دلی خواہشات کو دور حاضر میں امام خمینیؒ  نے جامہ عمل پہننایا اور اپنی تقریروں میں اعلیٰ انسانی اقدار سے متعلق مطالب اور حقیقت پسندانہ شناخت کے اصول بیان کرتے ہوئے عالم وجود کے مختلف پہلووں اور اس کی مختلف سطوح کی جہات اور عوالم ہستی کی قدر اور اس کے حدود کا ذکر کیا ہے...

آپ نے انسان کو دنیوی لغزشوں سے خبردار کرتے ہوئے صراط مستقیم کہ جس کا طے کیا جانا ضروری ہے پر چلنے کی تاکید کی۔ آپ انسانوں کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے بڑھ کر خفی الطاف سے آگاہ اور باخبر ہونے کی ضرورت کی تاکید کے ساتھ ساتھ موجود انسانی علم و دانش کے نکتہ نگاہ سے مادی مظاہر کی جانب انسان کے واقعی حیرت انگیز رجحان کے حدود بھی بیان فرمائے ہیں۔

آپ نے فرد اور معاشرے کی ترقی و تکامل کا ذریعہ ’’معاشرے کی تنظیم‘‘ الٰہی فرائض و ذمہ داریوں کی بجا آوری اور کائنات کی معرفت کو قرار دیا اور ان کو لازمی جانا ہے۔

امام خمینی نے روح، عقلی مقامات، غیبی درجات و مراتب کے بارے میں قرآنی تعلیمات نیز، ذاتی فرائض سے متعلق امور کہ جو انسان کی ترقی و تکامل میں  موثر ہوتے ہیں اور قرآن و سنت میں بیان ہوئے ہیں کی جانب اشارہ کیا ہے...

اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہےکہ ہم زیادہ سے زیادہ دقیق مکتب، خود اعتمادی کے حامل اور احساس کمتری اور دائیں یا بائیں جھکاؤ رکھنے سے مبریٰ ضمیر کے ساتھ امام خمینیؒ کی ہدایات کی نوارنی شعاعوں کا تجزیہ و تحلیل کریں...

خود اعتمادی کا فقدان اور خیالی عناصر کا خوف وہ اہم عوامل ہیں جن کی بنا پر معاشرے کا اپنی ذات اور شخصیت پر اعتماد متزلزل ہوجاتا اور نتیجتاً وہ اپنا اجتماعی تشخص کھو بیٹھتا ہے۔

تحریر: سید ماجد حُسین رضوی

ای میل کریں